لاہور،کراچی:کرک اگین رپورٹ
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان،سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے غیر معیاری پچز پر پی سی بی،رمیز راجہ اور ٹیم کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے،انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پنڈی کے بعد کراچی کی پچ خراب تر ہے،یہ بیٹنگ کیا،بائولنگ کیا،سرے سے ٹیسٹ کی پچ ہی نہیں ہے۔
سہمے ہوئے کپتان کا جشن،مارک ٹیلر کی سخت تنقید،کراچی ٹیسٹ کا نتیجہ جان لیں
پاکستان کے لئے ورلڈکپ 1992 میں چیمپئن بنوانے میں اہم کردار اداکرنے والے انضمام کہتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ پرفارمنس کی بات کروں یا کنڈیشنز کی۔2009 کے بعد کبھی کبھار کئی ٹیمیں پاکستان آئی تھیں،اس ٹیم کے آنے سے پہلی بار محسوس ہوا کہ کوئی ٹیم آرہی ہے۔انٹرنیشنل کرکٹ واپسی آگئی ہے۔بورڈ نے 3 وینیوز میں میچز رکھے،تاثر دیا کہ پورا پاکستان ٹھیک ہے،جہاں مرضی کھیلیں۔ٹیسٹ میں کرائوڈ بھی آیا۔
آسٹریلیا کے خلاف 1994 میں کراچی ٹیسٹ میں سنسنی خیز انداز میں پاکستان کو ایک وکٹ کی جیت دلوانے والے انضی نے کہا ہے کہ اس سب کے باوجود پچز نے کام تمام کردیا۔پی سی بی چیئرمین پچز اچھی بنانے کی باتیں کرتے ہیں لیکن ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ گرائونڈ مین بھی کوئی چیز ہوتا ہے،جس نے پچ بنانی ہے،اس کی بھی کوالٹی ہوتی ہے،جس طرح کی یہ پچز بنائی ہیں،اس پر نوٹس لینا بنتا ہے۔سپورٹ ایبل پچز پر زور تو ہے لیکن پچ بنانے والا کوئی انسان اچھا بھی ہے۔ہم رو پیٹ کر ساری جگہ سے ایک ہی گرائونڈ مین کو لے آتے ہیں کہ وہ پچ بنائے۔یہ کیا بات ہوئی۔
پچ کا کمال ،رمیز راجہ کی نئی ہدایات پڑھیئے،کراچی ٹیسٹ کی اپ ڈیٹ بھی ساتھ
دائیں ہاتھ کے سابق پاکستانی لیجنڈری کرکٹر انضمام الحق کہتے ہیں کہ راولپنڈی اور کراچی کی پچز دیکھ کر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ یہ نہ بیٹنگ کی پچ ہے،نہ بائولنگ کی پچ ہے۔یہ ٹیسٹ میچ کی پچ بھی نہیں ہے۔
انضمام نے ایک بڑا انکشاف کیا ہے اور کہا ہے کہ جس وقت میں سلیکشن میں تھا تو یہاں بات ہوئی کہ ہم جیسے ساری دنیا میں کھیلنے جاتے ہیں تو ایک تصور ہوتا ہے،جیسے آسٹریلیا میں پرتھ جانا ہے تو علم ہے کہ پچ فاسٹ ہوگی،سڈنی کی پچ اسپنر ہوگی،میلبورن کی پچ سپورٹنگ ہے،دونوں جانب مدد ملے گی۔ہر ملک میں جہاں بھی کھیلنے جاتے ہیں تو اس کی ایک پہچان ہے۔میں نے پی سی بی کو تجویز دی تھی کہ جن کرکٹرز نے پاکستان کے لئے کھیل رکھا ہے ،ان کو غیر ممالک سے پچز کے کورس کریں،پھر انہیں پاکستان کے 4 سے 5 سنٹرز دے دیں،تاکہ وہ ہمارا بھی ایک کلچر متعارف کروائیں۔ہمارے بھی سنٹرز ایک پہچان رکھیں۔ملتان،لاہور،کراچی،پنڈی اور فیصل آباد میں ہدایات کے مطابق پچز بنائیں۔
انضمام الحق 2016 سے 2019 تک پاکستان کے بلاشرکت غیرے چیف سلیکٹر تھے،انہوں نے یہ تجویز یقینی طور پر اس وقت ہی دی تھی۔
صورتحال یہ ہے کہ اب ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ پچز کیسی ہونگی۔کراچی میں جس طرح آسٹریلیا والے کھیل رہے ہیں،وہ جیسے جیت کے لئے کھیل ہی نہیں رہے۔جیتنے کی کوشش نہیں کررہے۔میں نے زندگی میں ایسا ٹیسٹ نہیں دیکھا کہ کوئی ٹیم 500 اسکور کرچکی ہو،اس کی اننگ جاری ہے۔عثمان خواجہ بھی ایسے ہی کھیل رہے تھے۔
انضمام کہتے ہیں کہ اتنے عرصے بعد کرکٹ آئی ہے تو ایسا تو نہ کریں۔پچز کو اچھا بنائیں،گرائونڈ مین تقرر کریں۔ہمارے پلیئرز کو علم ہو۔ہمارے لوگوں کو کورس کروائے جائیں۔
انضمام کہتے ہیں کہ اب بال نیچے بیٹھنے لگی ہے،اب ایک بات ہوگی کہ پاکستانی بیٹنگ پھنس جائے۔ویسے چانس تو نہیں ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ ہے،کچھ بھی ہوسکتا ہے۔فرض کرلیں کہ ایسا ہوا تو الٹا گلے پڑے گا۔مجھے نہیں علم کہ کپتان،کوچ یا پی سی بی کی ہدایت ہے کہ ایسی پچز بنائی گئی ہیں۔میں جس وقت کپتان تھا،اس وقت میری ڈیمانڈ کے مطابق پچ نہیں بنتی تھی،اس لئے میں کپتان اور کوچ کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتا۔