کرک اگین رپورٹ
File poto
دماغ ہل گئے ہیں بلکہ کام کرنا چھوڑ گئے،دونوں طرف یہی حال ہے۔دونوں جانب یہی تماشا ہے۔بھارتی ٹیم جوہانسبرگ کی تیز پچ پر چوتھی اننگ میں 240 اسکور کا دفاع نہیں کرسکی،اس کے تجزیہ نگار وکمنٹیٹر اپنے کل کے بچوں سراج،شردول ٹھاکر اور شامی کو وسیم اکرم ،وقار یونس اور شعیب اختر کے ساتھ ملانے پر تلے تھے۔نتیجہ فوری آگیا کہ 240 اسکور کا دفاع ہی نہ کرسکے،دفاع نہ کرنا بڑی خرابی نہیں ہے۔بڑی تباہی تو یہ ہے کہ چوتھی اننگ میں چوتھے روز بارش زدہ ماحول میں خراب پچ پر وہ صرف ایک وکٹ مزید لے سکے۔ہائے ناکامی،وائے ناکامی۔یہ تباہی ہی تو ہے پرفارمنس کی۔خیالات کی،ذہنی سوچ کی اور عقل کی۔یہ سرحد کے اس پار ہوا ہے۔
بھارت جوہانسبرگ کا قلعہ ہارگیا،سیریز بھی برابر
اب ذرا ادھر کی بھی خبر لیتے ہیں۔پاکستان انڈر 19 ٹیم نے جس طرح حال ہی میں ایشیا کپ ہارا ہے،اس سے بدترین مثال نہیں ملتی۔سیمی فائنل میں سری لنکن بچوں سے اسی تباہی،بربادی والے انداز میں ہارے جیسے آج بھارت ٹیسٹ میچ ہارا ہے۔یعنی یہ ٹیم 147 رنزکا ہدف نہیں پاسکی۔اس داغ کے ساتھ یہ ٹیم اگلے مشن انڈر 19 ورلڈ کپ کے لئے ویسٹ انڈیز پہنچ چکی ہے،وہاں ایک کھلاڑی ان فٹ ہوگئے ہیں۔اب ان کی جگہ جس کی سلیکشن ہوئی ہے،اس نے یہاں کے خالی الدماغ لوگ پھر سے بے نقاب کردیئے ہیں۔
عبدالواحد بنگلزئی کی جگہ عباس علی قومی انڈر 19 اسکواڈ کا حصہ بن گئے۔وہ آئی سی سی انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان انڈر 19 کی نمائندگی کریں گے۔ایونٹ 14 جنوری سے 5 فروری تک کیربین سرزمین پر کھیلا جائے گا17 سالہ عباس علی کا تعلق پشاور سے ہے۔انہوں نے پی سی بی انڈر 19 ون ڈے کپ میں 152 اور انڈر 19 تھری ڈے چیمپئن شپ میں 265 رنز بنائے تھے۔عباس علی 8 جنوری کو ٹرینیڈاڈ کے لیے روانہ ہوں گے۔
قومی انڈر 19 کپ،ایک اور نئے کرکٹر کی سلیکشن
عباس علی کا یہ ٹکٹ کس نے جاری کیا ہے۔ٹیم کے ہیڈ کوچ اعجاز احمد ہیں،چیف سلیکٹر سلیم جعفر ہیں۔ویسے حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ہی اوسط درجہ کےکھلاڑی تھے۔ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی ریکارڈز بنائے ہوں،تیکنیکی اعتبار سے کہیں بہتر ہوں۔ایسا ہرگز نہیں ہے،شاید وہی ذہنی سوچ ہی کام چلارہی ہے۔
آپ نے اوپر دی گئی عباس کی پرفارمنس دیکھ لی،اب ذرا ادھر ایک کرکٹر آذان علی بھی ہیں،ان کا کھاتہ ان سے ڈبل اور تیز چل رہا ہے،انہوں نے 78 کی اوسط سے 313 اسکور بنائے ہیں۔کہاں 25 اور کہاں 78 کی ایوریج۔کہاں 152 اور کہاں 313 اسکور۔
سوال یہ ہے کہ یہ کس کی سلیکشن ہے،کس کا فیصلہ ہے۔یہ خوش قسمتی دراصل کس خاص وجہ کی بنیاد پر ہے۔یہاں سب ہی فاطر العقل نہیں بستے ہیں،یہاں گھاس چرانا آسان ہے لیکن چھپانا ممکن نہیں ہے۔ٹیم کی بربادی کی بنیادی وجہ یہی کلچر ہے۔اس سے کب جان چھوٹے گی۔اوسط درجہ کے کرکٹرز تو ایسی اوسط مثالیں ہی قائم کریں گے۔