کرک اگین رپورٹ
پاکستان اور آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز کا نام بینو،قادر ٹرافی رکھ دیا گیا۔بلاشبہ دونوں ممالک کا یہ بہترین اقدام ہے۔
ان دونوں سے مشہور بھی ہونگے۔سپر اسٹارز بھی اور آج کچھ زیادہ بلند۔ بھی ۔اس کے باوجود رچی بینو اور عبدالقادر اپنے وقت کے ممتاز تھے۔آج بھی ہیں۔
پی سی بی اور کرکٹ آسٹریلیا کا تاریخی اقدام،قادر بینو ٹرافی متعارف
کوئی جب بھول سکتا ہے،جب ورلڈکپ 1992 کے فائنل کے آخری لمحات تھے۔پاکستانی کپتان عمران خان کی آخری بال پر رمیز راجہ انگلش کھلاڑی النگورتھ کا کیچ پکڑنے کے لئے دوڑے تو کمنٹری بکس سے جس کمنٹیٹر کی آواز گونج رہی تھی ۔وہ رچی بینو ہی تھے۔
رچی بینواور عبد القادر دونوں ہی لیگ بریکر تھے۔اسپن گیند بازی کے ماسٹرز،بدقسمتی سے دونوں اس جہاں میں نہیں رہے۔رچی بینو 2015 میں 84 سال کی عمر اور عبد القادر 2019 میں 63 سال کی عمر میں چل بسے۔
رچی بینو بہتر آل رائونڈر تھے۔انہوں نے 63 ٹیسٹ میچز میں 3 سنچریز کی مدد سے2201 اسکور کئے۔پھر اپنے فن لیگ بریکنگ میں 248 وکٹیں لیں۔اننگ میں 72 رنز کے عوض 7 اور میچ میں 105 رنز کے ساتھ 11 وکٹیں بہترین پرفارمنس تھی۔
عبد القادر اپنے وقت کے ماسٹر تھے۔80 کی دہائی میں پاکستان کی اپنے ہاں ناقابل شکست رہنے اور بیرون ممالک میں فتح میں ان کا اہم رول تھا۔
لیجنڈری سپنر نے 67 میچز میں 236 وکٹیں لیں ۔56 رنز کے عوض 9 اننگ اور 101 رنز دے کر 13 وکٹیں میچ کی بہترین پرفارمنس ہے۔
رچی بینو اور عبد القادر 2 عہد کے ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی تھے۔بینو کا ٹیسٹ کیریئر 1952 سے 1964 اور عبد القادر کا 1977 سے 1990 تک رہا ہے۔