عمران عثمانی کا خصوصی تجزیہ
لاہور ٹیسٹ میں آج کا بڑا چیلنج،پاکستان کو ایک تاریخی مدد حاصل،کون جیتے گا۔لاہور ٹیسٹ نہایت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔پاکستان کی دوسری اننگ میں ایک چھوٹی مگر ناقابل شکست شراکت نے آسٹریلین ٹیم کی نیندیں اڑادی ہیں۔نتیجہ میں کھیل کا 5 واں روز سنسنی خیز اور اہم ہوگیا ہے۔پاکستانی ٹیم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور دلیروں کی طرح میچ مکمل کیا تو ہار،جیت ڈرا سے قطع نظر دنیا بھر کی توجہ لاہور حاصل کرے گا،ٹیسٹ کرکٹ کی واہ واہ ہوگی۔انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستانی ٹیم اور اس کی میزبانی کے چرچے بھی عام ہونگے۔
لاہور ٹیسٹ کے آخری روز سے قبل کی صورتحال
چوتھے روز کے اختتام تک پاکستان نے بناکسی نقصان کے 73 اسکور بنالئے ہیں۔اسے جیت کے لئے مزید 278 اسکور بنانے ہیں۔آسان الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ پاکستان کو اب صرف 278 اسکور اور بنانے ہیں۔فریش دن اور فریش ماحول میں تمام 10 وکٹوں کے ساتھ وہ میدان میں اتریں گے۔آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگ کی کامیاب بائولنگ،کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کو فالوآن نہ کروانے کی غلطی کے ازالہ کے لئے اس نے اپنی دوسری اننگ 227 رنز 3 وکٹ پر ڈکلیئر کردی۔اس طرح پاکستان کو 4 سیشن میں جیت کے لئے 351 رنزکا بڑا ہدف دیا۔عام طور پر اتنا اسکور 4 سیشنز میں نہیں بنتا ہے لیکن امام الحق اور عبد اللہ شفیق نے کچھ ایسا کردیا کہ سب کے لئے الارم بج گئے ہیں۔
پاکستانی ٹیم جیت کے لئے کھیلے گی تو کیا کرے
قومی کرکٹ ٹیم کی اننگ کے آغاز نے یہ تو بتادیا ہے کہ کھلاڑی جیتنا چاہتے ہیں،اس کی تصدیق بیٹنگ کوچ محمد یوسف بھی کرچکے ہیں۔اب جب کہ یہ طے ہوگیا کہ ٹیم کی پہلی ترجیح جیتنے کی کوشش ہے ،اب ایسی کوشش کے لئے پاکستان کے پاس بہترین وقت پہلا سیشن ہے۔پہلے سیشن میں بال 27 اوورز پرانی استعمال ہوگی۔آسٹریلیا کو لنچ تک اتنی ریورس سوئنگ نہیں ملے گی جو کہ 60 اوورز پرانی بال پر سورٹ ملتی ہے۔اس لئے پاکستان کو کم سے کم پہلے سیشن میں ساڑھے 3 کے قریب کی اوسط سے اسکور کرنے چاہئیں۔اگر ایسا ہوا تو لنچ تک پاکستان 180 تک پہنچ سکتا ہے۔پیچھے 171 اسکور ہونگے۔2 سیشن میں نہایت ذمہ داری اور اعتماد سے بنائے جاسکتے ہیں۔پاکستان نے اگر حسب سابق پہلے سیشن میں 70 سے 80 ہی اسکور بنائے تو پھر آگے مشکل ہوگی۔اس لئے کہ بعد میں ریورس سوئنگ میں تیز کھیلنے کی کوشش الٹا گلے پڑے گی۔
تاریخی جیت سے 278 رنز کی دوری،پاکستان کا بڑا اعلان
جلد وکٹیں گرنے کی صورت میں بھی پاکستان ایک حد تک وقت گزارے،جیسے ہی بیٹرز سیٹ ہونگے تو پھر اسکور کی کوشش کریں۔پاکستان نے اگر پہلا سیشن کم سے کم 2 وکٹ بھی کھوکر 100 سے110 اسکور کے ساتھ مکمل کرلیا تو آسٹریلیا دفاعی فیلڈنگ پر آجائے گا۔وکٹ کیپر محمد رضوان اہمیت کے حامل ہونگے۔وہ ایک بار پھر کل میچ وننگ اننگ کھیل سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کے پاس کیا مواقع
آسٹریلیا ایک تو شروع کا آدھا گھنٹہ وکٹ لینے کی کوشش کرے گا،اس کے بعد پھر تھوڑا بال پرانا کرکے پیٹ کمنز اور خاص کر مچل سٹارک کے ریورس سوئنگ آرٹ سے مدد لے گا۔ایسا جب بھی ہو تو پاکستانی بیٹرز کو نہایت احیتاط سے ان کے 2 اسپیل گزارنے ہونگے جو زیادیہ سے زیادہ 15 اوورز پر محیط ہونگے۔
ٹیسٹ کرکٹ کی چوتھی اننگ کے کامیاب اہداف
اب تک ٹیسٹ کرکٹ میں چوتھی اننگ کے کامیاب اہداف زیادہ نہیں ہیں لیکن بہر حال موجود ہیں۔ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کے خلاف 7 وکٹ پر 417 رنزکا ہدف حاصل کیا،جو اب بھی ورلڈ ریکارڈ ہے۔جنوبی افریقا نے 4 وکٹ پر 414 اسکور حاصل کئے۔اتفاق سے اس بار بھی حریف آسٹریلیا تھا۔آسٹریلیا نے انگلینڈ کے خلاف 404 اور بھارت نے 406 کا ہدف حاصل کررکھا ہے۔ویسٹ انڈیز نےبنگلہ دیش کے خلاف 395 اور سری لنکا نے زمبابوے کے خلاف 391 ،اسی طرح بھارت نے انگلینڈ کے خلاف 387 اور پاکستان نے سری لنکا کے خلاف 382 رنزکا ہدف حاصل کررکھا ہے۔
پاکستانی اوپنرز نے لاہور ٹیسٹ جیتنے کی امید دلادی،پچز پر رمیز کا منصوبہ مسترد
پاکستان نے 1994 میں کراچی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے خلاف 315 کا ہدف 9 وکٹ پر حاصل کیا تھا جو اس کے خلاف اب تک کا کامیاب بڑا ہدف ہے۔پاکستان اگر آج کامیاب ہوا تو آسٹریلیا کے خلاف سب سے بڑے ہدف کا حصول ہوگا۔ورلڈ کرکٹ میں یہ 13 واں کامیاب ترین اور بڑا ہدف بن جائے گا۔
امکانات کس کے
اس سے قبل قذافی اسٹیڈیم لاہورمیں پاکستان اور آسٹریلیا کے اب تک کے 2 ہی فیصلہ کن میچز کے نتائج پر نگاہ ڈالتے ہیں۔5 میچز میں سے 3 تو ڈرا ہوئے۔باقی 2 میچز دونوں نے ایک ایک جیتے،طاقت یہاں برا بر ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں میچز چوتھی اننگ کھیلنے والی ٹیم کے نام رہے۔آسٹریلیا نے 1959 میں 123 رنز کا ہدف 7 وکٹ پ مکمل کرلیا۔پاکستان نے 1982 کے ٹیسٹ میں 64 رنزکا ہدف صرف ایک وکٹ پر 15 اوورز میں مکمل کرلیا تھا۔
ان نتائج سے یہ واضح ہوا کہ دونوں ٹیموں کے دونوں فیصلہ کن میچز چوتھی اننگ کھیلنے والی ٹیمیں جیتی ہیں۔اتفاق سے پاکستان اس بار چوتھی اننگ ہی کھیل رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آسٹریلیا کا بائولنگ اٹیک ورلڈ کلاس ہے۔آخری روز پچ اسپنرز کو مدد بھی دے گی،ریورس سوئنگ بھی ہوگی لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میزبان ے،اس کے لئے ہوم کنڈیشنز اور ہوم گرائونڈ ہیں،اس لئے اسے ثابت کرنا ہوگا کہ اس کے لئے کچھ مسئلہ نہیں ہے۔جیت مشکل،ہدف بڑا چیلنج ہے۔فتح معجزاتی کارکرگی ہوگی،لڑکر ہارے تو کوئی دکھ نہیں ہوگا لیکن پہلی اننگ کا ذرا بھی عکس نظر آیا تو حسن علی کی سلیکشن سے لے کر اسپنرز کی سلیکشن تک سپ پر انگلیاں اٹھ جائیں گی۔
لاہور ٹیسٹ کے بعد ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں پاکستان کی پوزیشن،پریشانی زیادہ