ملتان،عمران عثمانی سے
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم،ایک روزہ ریکارڈز،گرمی اور آم کے موسم میں پہلی بار میچز۔ایک زمانہ تھا،قاسم باغ اسٹیڈیم اپنی منفرد پہچان رکھتا تھا،پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرکٹ لاہور،کراچی،فیصل آباد تک زیادہ تر محدود رہتی تھی،اس کے مقابل قاسم باغ اسٹیڈیم شہر سے بلندی پر واقع قلعہ میں ہونے کے باعث اپنی ایک پہچان رکھتا تھا،جو ٹیم بھی پاکستان میں یہاں آکر کھیلا کرتی تھی،ایک انمول یاد لے کر رخصت ہوتی تھی۔پھر روڈز کی تنگی اور جگہ کی کمی کے باعث شہر سے ذرا ہٹ کر ملتان کرکٹ اسٹیڈیم بنایا گیا۔شروع شروع میں تو ایسا لگا کرتا تھا کہ جیسے شہر سے باہر کرکٹ ہورہی ہے۔چاروں جانب لہلاتے کھیت اور باغات دکھائی دیتے تھے،آج 2 عشرے گزرنے کے بعد آبادی اتنی پھیل گئی ہے کہ وہ سبزے اور دیہاتی ماحول کا اثر ختم ہوکر رہ گیا ہے۔پھر بھی قاسم باغ کرکٹ اسٹیڈیم کی نسبت ملتان کرکٹ اسٹیڈیم اپنی خوبصورتی اور لوکیشن کے اعتبار سے ایک خاص پہچان رکھتا ہے۔مسئلہ اس بار اس سے ہٹ کر ہے جس کا چرچا بھی خوب ہوگا اور وہ ہے موسم گرما میں کرکٹ۔وہ بھی ایسے شہر میں جو گرمی کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک پہچان رکھتا ہے۔
پاکستان کی انٹرنیشنل وڈومیسٹک کرکٹ کبھی بھی بھی جون میں نہیں ہوتی۔اس لئے کہ موسم گرما کا یہ عروج وقت ہوتا ہے،اس کے باوجود ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک روزہ سیریز مجبوری کے باعث ملتان میں رکھی گئی ہے۔ملتان اس موسم میں پھلوں کے بادشاہ آم کے حوالہ سے بھی ایک پہچان رکھتا ہے۔آم کے اس موسم میں کرکٹ کا تڑکا بھی ایک منفرد ذائقہ بنے گا،جب شام 4 بجے کی گرمی میں میچ شروع ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوپہر کی تپتی دھوپ میں قریب 3 بجے ٹیمیں،اسٹاف ممبران اسٹیڈیم کے وسط میں دکھائی دیں۔مہمان کھلاڑیوں کو دن میں آم اور لسی کا بڑا ناشتہ دینا پڑے گا،ورنہ یہ گرمی پہلے 3 گھنٹوں ہی میں سب کو نڈھال کردے گی۔کرکٹ فینز بھی مغرب سے قبل شاید ہی میدان کا رخ کریں۔
ویسے تو 30 ہزار تماشائیوں کے گجنائش والے اسٹیڈیم میں تاریخ کاپہلا ٹیسٹ میچ 2001 میں کھیلا گیا،جب بنگلہ دیش نے ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کے سلسلہ کا ڈیبیو میچ یہاں کھیلا۔پاکستان اور بھارت کا 2004 کا ٹیسٹ میچ وریندر سہواگ کی ٹرپل سنچری اور پاکستان کی شکست کے حوالہ سے یہاں کی توجہ کا مرکز بنا لیکن فی الوقت یہاں ایک روزہ کرکٹ کے حوالہ سے بحث مقصود ہے۔
ویسٹ انڈیز کے لئے یہ مقام نیا نہیں ہے۔2006 میں وہ یہاں ایک روزہ میچ کھیل چکے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ جیت کرنکلے تھے لیکن ان کے لئے تلخ مزا ملتان کا گرم ترین موسم بھی ہوگا جو مئی کے کچھ ایام میں 47 سینٹی گریڈ سے اوپر تک گیا،جون میں کوئی بعید نہیں ہے کہ ایک بار پھر ویسا ہی ہوجائے۔
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم 14 برس بعد کسی بھی ایک روزہ انٹرنیشنل میچ کی میزبانی کرے گا۔آخری بار یہاں 2008 میں پاکستان کھیلا تھا۔میزبان ٹیم کے لئے یہ میدان ہر حال میں فتح کی علامت نہیں ہے۔7 میچز کھیل کر وہ 4 جیتا ہے تو 3 میں ناکامی اس کا مقدر بنی ہے۔بھارت،جنوبی افریقا اور ویسٹ انڈیز نے یہاں ایک ایک میچ کھیلا اور جیتا ۔یہی 3 ناکامیاں پاکستان کا ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں مقدر بنی ہیں۔قومی ٹیم کی 4 فتوحات بنگلہ دیش اور زمبابوے جیسے ملک کے خلاف ہیں ،دونوں کو 2،2 بار ہرایا ہے۔
ون ڈے کرکٹ کی تاریخ ملتان کرکٹ اسٹیڈیم کے لئے عملی طور پر 2003 سے 2008 کے درمیان کی ہے۔اس کے بعد ملک بھر کی انٹرنیشنل کرکٹ معطلی ہے تو آخری 3 سال میں پی ایس ایل سے بڑھ کر کچھ نہیں ملا،اس کا حال بھی جزوی حاضری کا سا رہا ہے۔
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کل ملا کر 7 ہی میچز کھیلے گئے ہیں،تمام میں پاکستان کھیلا ہے۔9 ستمبر 2003 کو اس گرائونڈ کی تاریخ کے اولین میچ میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو137 رنز سے شکست دی تھی۔30 ستمبر 2004 کو زمبابوے کے خلاف 144 رنزکی فتح سمیٹی تھی۔
پاک ویسٹ انڈیز ون ڈے سیریز راولپنڈی سے آئوٹ،ملتان میزبان
پاکستان نے اس میدان کی تاریخ میں اپنا تیسرا میچ روایتی حریف بھارت کے خلاف کھیلا ہے۔16 فروری 2006 کو پاکستان اس میدان کی تاریخ میں پہلی بار ہارگیا،بھارت5 وکٹ سے کامیاب ہوا۔اسی سال دسمبر کی13 تاریخ کو ویسٹ انڈیز نے یہاں پہلی بار قدم رکھے اور پاکستان کو 50 اوورز فارمیٹ کے میچ میں 7 وکٹ سے ہرادیا۔26 اکتوبر 2007 کو پاکستان مسلسل تیسرے سال تیسری مختلف ٹیم جنوبی افریقا سے ہارگیا۔پروٹیز نےبھی 7 وکٹ سے شکست دی۔پاکستان فتح کے ٹریک پر واپس 2008 میں آیا۔پہلے 27 جنوری کو زمبابوے کے خلاف 37 رنز اور پھر 16 اپریل کو بنگلہ دیش کے خلاف7 وکٹ سے فتح نام کی۔اس کے بعد سے یہاں کوئی ون ڈے میچ نہیں کھیلا گیا۔
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم کا ہائی اسکور 3 وکٹ پر 323 رنز ہے جو پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف 9 ستمبر 2003 کو بنایا تھا۔ کسی بھی غیر ملکی ٹیم زمبابوے کا زیادہ سے زیادہ مجموعہ 7 وکٹ پر 235 رنزکا ہے جو27 جنوری 2008 کا ہے۔
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کم سے کم ٹوٹل کا ریکارڈ30 ستمبر 2004 کا زمبابوے کا ہے۔
مجموعی زیادہ اسکور زمیں یاسر حمید کے 4 میچزمیں 197 اور انضمام الحق کے178 ہیں۔یاسر حمید116،شکیب الحسن 108 ،عبد الرزاق 107 اورمارلوس سموئلز 100 کے ساتھ ٹاپ اسکورر اور یہی 4 ہنڈرڈ کا اعزاز رکھتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ ون ڈے کرکٹ انٹرنیشنل کی تاریخ میں ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں پیسرز کے لئے کوئی بڑی جگہ نہیں۔شعیب ملک 7 میچزمیں 6 اور شاہد آفریدی 5 میچزمیں 6 وکٹ کے ساتھ ٹاپ وکٹ ٹیکر ہیں،دونوں ہی اسپنرز ہیں۔
انفرادی بائولنگ کا اعزاز بھارت کےآر پی سنگھ کے پاس ہے،جنہوں نے 16 فروری 2004 کو پاکستان کے خلاف 40 رنزکے عوض 4 وکٹیں لیں۔پاکستان کا کوئی گیند باز یہاں ایک میچ میں 4 وکٹیں نہیں لے سکا۔
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں سب سے بڑی پارٹنرشپ کا ریکارڈ 26 اکتوبر 2007 کو بنا،مہمان ٹیم جنوبی افریقا کے پیئرز شان پولاک اور گریم اسمتھ نے پاکستان کے خلاف159 رنزبناڈالے۔یاسر اور یوسف کی دوسری وکٹ پر 120 رنزکی شراکت پاکستان کے لئے ایک روزہ میچزمیں ملتان کے حوالہ سے کسی بھی وکٹ پر بڑی پارٹنر شپ ہے۔
ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کوئی بڑا ایک روزہ ریکارڈ نہیں بنا ہے لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ویسٹ انڈیز یہاں بھلے ایک میچ کھیلا ہے لیکن 16 سال سے ناقابل شکست تو ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان اپنے اس مقام پر کبھی کسی بڑے ملک کے خلاف ون ڈے نہیں جیتا ہے۔تیسرا نکتہ یہ ہے کہ رواں سیریز ورلڈکپ سپرلیگ کا حصہ ہے۔پاکستان ایک بھی شکست کا متحمل نہیں ہوسکتا،اس لئے ملتان کی اپنی سابقہ روایت اسے بدلنی ہوگی۔