کرک اگین رپورٹ
Getty Images,File Photo
نیشبل اسٹیڈیم کراچی میں پاک آسٹریلیا کا آخری ٹاکرا،اسپنرز یا پیسرز،ہواکیا۔پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دوسرا ٹیسٹ میچ ہفتہ سے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا جائے گا۔دونوں ممالک کے مابین یہاں مجموعی طور پر یہ نواں میچ ہوگا،اس سے قبل کھیلے گئے 8 میچزمیں سے 5 پاکستان جیتا ہے۔3 میچز ڈرا رہے ہیں،ان ڈرا میں سے ایک میچ 1998 کا وہ آخری ٹیسٹ بھی ہے جو کینگروز نے یہاں اس سے قبل کھیلا تھا۔اکتوبر 1998 میں اتفاق سے اس وقت یہ 3 میچزکی سیریز کا آخری میچ تھا،سیریز بچانے کے لئے پاکستان کی جیت ضروری تھی،میزبان ٹیم کچھ نہ کرسکی،مہمان ٹیم نے ڈرا میچ کے ساتھ سیریز اپنے نام کرلی۔
یہاں اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ تب جب کہ پاکستان سیریز میں خسارے کا شکار تھا،ایسے میں پاکستان نے میچ جیتنے کی کیا کوشش کی،اسپنرز پر انحصار کیا یا پیسرز پر،کون کامیاب ہوا۔بیٹرز نے کیا گل کھلائے۔
پاکستان کی سلیکشن دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے،کپتان عامر سہیل خود بھی اسپنر تھے۔1997 میں ڈیبیو کرنے والے رائٹ آرم آف اسپنرارشد خان کو کھلایاگیا۔سلو لیفٹ آرم اسپنرشکیل احمد کو ڈیبیو کروایا گیا،مطلب ثقلین مشتاق اور مشتاق جیسے اسپنرز نہیں تھے،فٹنس مسائل تھے،ان کی جگہ لایا گیا۔شکیل احمد کا یہ ڈیبیو تھا اور ان کا ٹیسٹ اکلوتا ہی رہا۔عامر سہیل خود بھی اسپنر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ٹیم میں شاہد آفریدی لیگ اسپنر کے طور پر تھے،ٹیم میں صرف 2 پیسرز وسیم اکرم اور شعیب اختر تھے۔
مارک ٹیلر ٹاس جیتے،پہلے کھیلے۔مائیکل سلیٹر نروس نائینٹیز کا شکار ہوئے۔وہ 96 کرکےارشد خان کا شکار بنے،این ہیلی کے 47 رنزکی مددسے آسٹریلیا 280 رنزکرگیا۔وسیم اکرم اور شعیب اختر کو ایک ایک وکٹ ملی۔نئے اسپنرز شکیل احمد تو کوئی آئوٹ نہ کرسکے البتہ ارشد خان نے3 اور شاہد آفریدی نے 52 رنز دے کر 5 وکٹیں لیں۔یہاں تک پیسرز ناکام رہے۔
پاکستان نے عامر سہیل کی سنچری 133 رنزکی بدولت بمشکل 252 رنزبنائے۔آفریدی،انضمام،یوسف،ملک اور اعجاز ناکام رہے،وسیم اکرم نے 35 رنزکئے۔آسٹریلیا کے پیسر گلین میک گراتھ 6 وکٹ کے ساتھ کامیاب رہے۔رائٹ آرم آف بریکر رابرٹسن نے 4 آئوٹ کئے،گویا آسٹریلیا کے لئے یہ پچ دونوں اعتبار سے کامیاب رہی۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کو کراچی پہنچتے ہی جھٹکا،اہم کھلاڑی کو کورونا،میچ سے باہر
آسٹریلیا کی ٹیم دوسری اننگ میں390 رنزکرگئی،مارک واہ نے سنچری کی،وسیم اکرم اور شعیب کو صرف ایک ایک وکٹ ملی،پاکستانی پیسرز مکمل ناکامی کی تصویر بن گئے۔ارشد خان نے 2 اور شکیل احمد نے 4 وکٹیں لیں۔پاکستان کو 419 رنزکا ہدف عبور کرنا تھا۔اعجاز احمد کے 120 اور معین خان کے شاندار 75 رنزکی بدولت پاکستان 86 اوورز کھیلنے میں کامیاب ہوگیا۔5 وکٹ پر262 اسکور کئے۔میچ اگرچہ ڈرا رہا،آسٹریلیا نے دونوں اننگز میں اپنی برتری ثابت کی ۔کولن ملر نے 3 وکٹیں لیں۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی،دوسرا ٹیسٹ بابر اعظم کے لئے کڑا امتحان،پاکستان کبھی نہیں ہارا
پاکستان کی یہ پچ پاکستان کے گلے پڑی،ساڑھے 3 اسپنرز کھلاکر بھی ہوم ٹیم مدد نہ لے سکی۔شعیب اختر جیسے اسپیڈ سٹار اور وسیم اکرم جیسے لیجنڈری کرکٹر ناکام گئے۔
اس سے کیا سبق ملتا ہے
پاکستان ٹیم کی سلیکشن بہتر ہونی چاہئے،وکٹ اچھی ہو۔پیسرز کے لئے ایک حد تک مددگار ہو لیکن اسپنرز کو فائدہ ہو۔