عمران عثمانی کا تجزیہ
ہم نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں دیکھا کہ جو ٹیم ٹاس جیت رہی تھی،میچ بھی اسی کا ہورہا تھا۔ہم نے یہ منظر گزشتہ سال کے پی ایس ایل میں بھی دیکھا،ہم نے اس وقت بھی اس کا توڑ نہیں سوچا،ہم ٹی 20 ورلڈ کپ سیمی فائنل بھی ٹاس ہارنے کے بعد ہی ہارے۔اس کے بعد موجودہ پی ایس ایل شروع ہوا،یہ منظرنامہ یہاں بھی جاری ہے۔نتیجہ میں ہم نے ٹی 20 ورلڈ کپ سیمی فائنل سے بھی نہیں سمجھا۔
بابر اعظم کراچی کی اننگ پر کیسےبوجھ،قلندرز کے لئے 171 رنز
ہم کیا سیکھ سکتے،پاکستان کرکٹ بورڈ کیا کرسکتا۔تمام فرنچائززاس معاملہ میں کیا کام کرسکتی ہیں۔یہ اہم سوال ہے،اسے سمجھنے کے لئے یہ جاننا ہوگا کہ یہ پی ایس ایل پاکستان کی ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کی ہے،اسے غیر ملکی کھلاڑیوں نے سیٹ نہیں کرنا،اس کے لئے تمام لوازمات ہم نے ہی تیار کرنے ہیں۔
آپ ایک اور تکرار بڑی سنتے ہونگے،پی ایس ایل کا معیار دنیا کی لیگز سے بہتر ہے،یہ بائولرز کی نرسری ہے،یہاں کمال بائولرز ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ ایسے ہی کہ جیسے انٹرنیشنل سطح پر یہ کہانی دہرائی جاتی ہے اور حالت یہ ہے کہ ہمارے ایک بھی فاسٹ بائولر نہیں۔ہمارا پیس اٹیک میڈیم پیسرز سے بھراہے،ہمارا فرسٹ اٹیک کبھی حسن علی،کبھی فہیم اشرف اور کبھی کسے نئے گیند باز کے ساتھ ہوتا ہے،کہانی پڑھی جاتی ہے کہ دنیا کا بہترین اٹیک ہے،شکستوں کی بڑھتی تاریخ نے بھی یہ کہانی تبدیل نہیں ہونے دی۔
واپس پی ایس ایل پر چلتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے بائولنگ کے حساب سے دنیا کی بہترین لیگ ہوگئی۔ہمیں اگر ٹی 20 ورلڈکپ جیتنا ہے،ہمیں آسٹریلیا میں فتح اپنے نام کرنی ہے تو آنکھیں کھولنی ہونگی۔پی ایس ایل 7 میں دنیا کی بیترین بائولنگ کی نرسری دوسری اننگ میں 200 سے زائدا سکور کا دفاع نہیں کرپاتی،میچ دن کے ہوں یا شام کے۔ابھی تھوڑی دیر قبل کراچی کنگز اپنا تیسرا میچ لاہور قلندرز سے 170 اسکور کرکے ہاری ہے،کنگز تیسرا ٹاس ہارگئے تھے تو میچ بھی ہارگئے۔یہ کیا بات ہوئی،آپ اس سے اندازاکریں کہ نیشنل کپتان سمیت کسی کو یہ بھی احساس نہیں ہے کہ جب یہ ماحول بن گیا ہے تو 220 سے اوپر اسکور کریں،کراچی کنگز نے84 رنزکا سٹینڈ لیا ،اس کے باوجود بھی 100 اسکور اور نہیں بن سکے۔کیسے بنتے،جب بابر اعظم بھی 15 ویں اوور تک وکٹ پر رہ کر وقت گزاریں۔اننگ کے 3 تہائی اوورز کا وقت لیں،ایک چوتھائی اوورز سے زیا دہ خود کھیل جائیں اور ان کا سٹرائیک ریٹ 124 کا ہو۔41 کی معمولی اننگ ہو تو گویا پہلے بیٹنگ کرکے جیتنے کا کوئی پلان بی نہیں ہے۔
بات آسٹریلیا کی ہورہی تھی،وہاں ورلڈ ٹی 20 کپ ہے،اسی کی مثال لے لیں،حال ہی میں ان کی بگ بیش لیگ ختم ہوئی ہے،وہ بھی پی ایس ایل کی طرح ہی ہے۔اس کے 61 میچز میں سے آدھے سے زیادہ میچز پہلے کھیلنے والی ٹیم جیتی۔
اس بات کو دوبارہ ذہن نشین کریں کہ بگ بیش لیگ میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں آدھےسے زیادہ میچزمیں کامیاب رہی ہیں۔33 بار پہلے بلے بازی کرنے والی ٹیمیں رنز کے مارجن سے جیتیں۔28 بار بعد میں بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں کامیاب ہوسکیں۔یہ 45 فیصد شرح بنتی ہے کہ پہلے کھیل کر کامیابی حاصل کی جائے ،اس کے مقابل پی ایس ایل 7 کے اب تک کے 6 میچز دیکھیں۔پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں 100 فیصد ہار رہی ہیں۔
اس کا کیا مطلب ہوا۔ایک ہی مطلب کہ پلان بی پاکستانی ٹیم منیجمنٹس،فرنچائز کوچز اور کپتانز کے پاس نہیں ہے۔نہ اس بات کا پلان بی کہ پہلے بلے بازی کرکے اب 170 اور 206 سے کہیں آگے جائیں اورکم سے کم 220 اور زیادہ کا سوچیں۔دوسرا پلان یہ نہیں ہے کہ اگر اسکور کم ہے یا 170 کا فائٹنگ ہے تو فیلڈنگ،کپتانی اور بائولنگ سے ایسی چالیں چلی جائیں کہ میچ رنز سےجیتا جاسکے،بعد والی بیٹنگ کو ناکام بنایا جاسکے۔
ورلڈ ٹی 20 کپ 2022 کے شیڈول اور ٹکٹس کی تاریخوں کا اعلان
پی ایس ایل دنیا کی بہترین لیگ تب ہوگی جب یہ پلانز ہوتے نطر آئیں گے ورنہ خالی ٹاس کے سکہ پر 34 میچز اور فائنل کا چیمپئن منتخب کرلیں،کیوں اتنا وقت صرف کیا جارہا ہے اور کیوں ایسی پریکٹس جاری ہے کہ جس کا آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ ٹی 20 کپ میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
عین ممکن ہے کہ پڑھنے والوں کو شاید یہ بات پسند نہ آئے لیکن سچ یہ ہے کہ وکٹ،ماحول اور ڈیو فیکٹر ایک حد تک ہوتے ہیں،گزشتہ سال بھی یہی رہا،کراچی میں لیگ شروع ہوئی تھی،13 میچزمیں یہی ٹاس کا ڈرامہ رہا،،پھر کہیں جاکر کوئٹہ ٹیم بعد میں بیٹنگ کرتے جیتی تھی۔یہ پلیئرز ہی ہوتے ہیں جو اپنی پرفارمنسز کے زور پر ان سب کو اپنا تابع بناتے ہیں،جس میں اس کی صلاحیت نہیں ہے،وہ کم سے کم چیمپئن نہیں بن سکتے،کبھی بھی جیت نہیں سکتے۔
تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اسی لیگ کے اختتام پر چوتھے درجہ کی ٹیم کہیں رینگ رینگ کر فائنل فور میں آئے،پھر اتفاق سے اس پر ٹاس کا سکہ مہربان ہوجائے اور وہ3 ٹاس جیت کر ٹرافی اٹھائے اور ہم اسے چیمپئن کہیں،وہ سال بھراس کا لطف بھی اٹھائے۔اس کے بعد اگلی لیگ شروع ہوجائے،اس سے پاکستان کرکٹ کو کیا فائدہ ہوا،اس سے ایونٹ کی ٹاپ تھری ٹیموں کی کیا غلاطی ہوئی،بھلے وہ بھی ٹاس کے سکہ کی وجہ سےٹاپ پر تھیں۔
ہم نے اگر پاکستان کرکٹ کو آگے لے جانا ہے،ہمیں اگر ٹاس کی قید سے ماورا ہوکراپنی ٹی 20 لیگ کو بہتر لیگ بنانا ہے اور ورلڈ ٹی 20 چیمپئن بننا ہے تو پھر ہر دو طرف سے کھلاڑیوں کو جیتنے کی ٹریننگ دینا ہوگی۔تب ہی جاکر ہم دنیا کی بہترین ٹیم بن سکیں گے۔
پاکستان سپر لیگ 7 میں بابر اعظم کو اپنا سٹرائیک ریٹ بہتر کرنا ہوگا۔یہی آگے جاکر انٹرنیشنل کرکٹ میں کام آئے گا،آپ اتفاق دیکھیں کہ انہیں پی ایس ایل میں کپتان بنایا گیا ہے،وہ 3 میچز میں بھی فتح حاصل نہ کرسکے،وہ 2020 میں بھی 2 میچزمیں یہ ذمہ داری ناکامی کی شکل میں ادا کرچکے ہیں۔آپ نے یہ جاننا ہو کہ کون درست ٹریک پر ہے تو اس کی کوششیں ٹاس ہارنے کے بعد دیکھیں۔وہ پہلے بلے بازی کرتے ہوئے کیا پلان بناتے اور کیسے کھیلتے ہیں،بعد میں فیلڈنگ کرتے ہوئے کیسے جیتنے کے جتن کرتےہیں،یہاں تو یہ حالت ہوتی ہے کہ 30 بالز پر 60 اسکور باقی ہوں،ایسے میں ایک بائونڈری یہ یقین دلادیتی ہے کہ ہم ہارگئے،یہ سوچ انٹرنیشنل کرکٹ میں کبھی کامیابی نہیں دے گی۔