کرک اگین رپورٹ
Image by Twitter
ٹاپ چیئر بدلنے سے پاگل پن ختم نہیں ہوگا،پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہرشاخ پہ الو بیٹھا ہے۔یہاں کوئی اپنے اور کوئی کسی اور کے مفادات کی تکمیل کرتا ہے،کوئی یہاں سے تنخواہ لیتا ہے اور کوئی تنخواہ کے ساتھ یہاں ،وہاں سے کچھ اور بھی ساتھ،آپ ملک کا کوئی شعبہ،کوئی میدان دیکھ لیں۔ہر جانب یہی حالت ہے۔اس سے بڑھ کر کیا اذیت ناک بات ہوگی کہ انسان کی بنیادی ضروریات پر بھی یہی بات حاوی ہوگئی ہے،کوئی ادارہ،کوئی سسٹم یا کوئی بھی عہدہ رکھنے والا سامنے نہیں آتا،ذمہ داری نہیں لیتا۔مسئلہ حل نہیں کرتا۔
اب تازہ مثال کرکٹ کی لے لیں۔شام ساڑھے 7 بجے کے قریب میں اپنے وٹس ایپ پر پی سی بی کی میڈیا ریلیز دیکھ رہا تھا۔اسے پڑھتے ہوئے میرا خون کھول رہا تھا۔پی سی بی کے عنعان کے مطابق یہ پی سی بی اور کرکٹ ویسٹ انڈیز کی مشترکہ سٹیٹمنٹ ہے۔لکھا تھا کہ کووڈ کیسز کی وجہ سے دونوں بورڈز کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ ایک روزہ سیریز ملتوی کی جائے،یہ اب جون 2022 میں ہوگی۔یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب کراچی میں تیسرا ٹی 20 جاری تھا۔
تیسرا ٹی 20 آج،ویسٹ انڈین کیمپ پر کورونا کے متعدد نئے وار،میچ خطرے میں،بریکنگ نیوز
سوال یہ ہے کہ بائیو سیکیور ببل میں ویسٹ انڈین پلیئرز کو کورونا کیسے ہوا۔ایک بار نہیں ۔2 بار ایسا ہوا۔پہلی بار پہلے ٹی 20 میچ سے قبل ،اب تیسرے میچ سے پہلے۔دونوں بار کل ملا کر 6 کھلاڑی باہر ہوئے۔3 سے 4 اسٹاف ممبران کو سائیڈ لائن ہونا پڑا ہے۔پھر سے سوال یہ ہوگا کہ یہ کیسے ہوا۔
اس سال پی ایس ایل کے دوران کراچی میں یہ سب ہوچکا،اس سے کیا سیکھا گیا؟کچھ نہیں۔یہاں ٹیمیں یا کھلاڑی لینڈ کرتے ہیں۔ایک روز میں کلیئر ہوتے ہیں،اس سے اگلے روز میدان میں آتے جاتے ہیں۔ساتھ میں سائیڈ لائن کی غیر معمولی حرکتیں بھی ہوتی ہیں۔ایسا بار بار ہوا۔نتیجہ آگیا ہے۔
پی سی بی کو احساس ہے کہ یہ کیا ہوا ہے؟ابھی دوسرا وار دیکھ لیں۔کراچی میں جمعرات کی شب تیسرا ٹی 20 میچ ختم ہونے کے دیرت تھی کہ کراچی ایئرپورٹ کا روٹ لگ گیا،کھلاڑیوں کی ٹکٹیں بھی پہلے سے بک تھیں۔آدھی رات کو پاکستان سے اس طرح کا اخراج بھی سوالات کھڑے کرگیا ہے۔
ایسے میں پی سی بی چیف آپریٹنگ آفیسر اب کس بات کا رونا رہے ہیں کہ کورونا ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی ہی لائے۔اگر ایسا ہے تو پھر اسے آزاد کیوں چھوڑا۔ان کو 1 ہفتہ کمروں میں بند رکھنا تھا۔اپنی میزبانی کے معاملات کو درست انداز میں ہینڈل کرنا تھا،اس میں ان کا کیا قصور ہے۔میں پھر سوال دہرا رہوں کہ پی سی بی کو احساس ہے کہ کیا سے کیا ہوگیا۔3 ماہ میں 2 ٹیمیں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سکیورٹی کا بہانہ بناکر بھاگ گئیں۔تیسری ٹیم آئی ہے تو بائیو سیکور ببل کی سکیورٹی کو رسک بناگئی۔اب آسٹریلیا و دیگر ممالک کو کیا پیغام گیا؟پھر اس طرح سیریز ملتوی کرکے،آدھی رات کو ٹیم کو روانہ کرکے شکوک بڑھادیئے ہیں۔یہ عمل پی ایس ایل میں غیر ملکی پلیئرز کی شرکت کو بھی مشکوک بناجائے گا،اسی طرح پورا پی ایس ایل بھی لپیٹ میں آگیا ہے،پھر آسٹریلیا کادورہ تو ہائی رسک ہوگیا ہے نا۔
پی سی بی کو پوری کوشش کرنی چاہئے تھی کہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ایک روزہ سیریز ہر حال میں ہوتی،بھلے 3 کی جگہ 2 میچز کی سیریز کھیلی جاتی۔بھلے 18 دسمبر کی بجائے 20،21 حتیٰ کہ 23 سے 24 دسمبر میں 3 میچز کھیل لئے جاتے۔اس سے ایک اچھے میزبان ملک کا تاثر جاتا۔ایک مکمل سیریز کےا نعقاد کی نیوز ہیڈ لائنز بنتیں،اب دبیا بھر کے میڈیا نے یہ بریکنگ نیوز نکالی ہیں کہ کووڈ کیسز کی وجہ سے ویسٹ انڈیز کی ٹیم دورہ پاکستان ادھورا چھوڑ کر اپنے ملک روانہ۔ویسٹ انڈیز ٹیم، بھی پاکستان کا دورہ چھوڑ گئی۔پی سی بی کے بائیو سیکیور ببل میں کورونا۔ویسٹ انڈیز ٹیم پاکستان میں غیر محفوظ،اپنے ملک روانہ۔پاکستان پھر ایک روزہ سیریز کے لئے ترستا رہ گیا،سیریز ختم وغیرہ وغیرہ۔
پی سی بی اگر تیسرا ٹی 20 میچ کھلاسکتا تھا،ویسٹ انڈیز کے تمام پلیئرز کے ٹیسٹ کلیئر ہونے کے بعد ہی یہ کھلاڑی آخریی میچ کھیلے تھے تو سوال یہ ہے کہ تازہ ترین کوووڈ کیسز میں میچ ہوسکتا تھا تو 4 سے 5 روز بعد 2 ون ڈے میچز ممکن نہیں تھے۔جواب یہ ہے کہ سب کچھ ممکن تھا۔ویسٹ انڈیز بورڈ نے بھی آخر کار وہی کیا جو کبھی کبھار ایک ایجنڈا ہی لگتا ہے۔پی سی بی حسب سابق ناکامی کا ایک اور باب لکھواگیا۔پوری کرکٹ برادری کو پیغام دلوادیا کہ پاکستان میں سیکیور کرکٹ،ماحول ممکن نہیں ہے۔یہ سب ہوگیا۔اب پی ایس ایل اور آسٹریلیا کے دورہ پاکستان اور پھر اس کے کامیاب اختتام کی معجزاتی انہونی کا انتظار کرلو۔