عمران عثمانی کا تجزیہ
مضمون شروع کرنے سے قبل 21 اکتوبر 2022 کو بھارتی وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر کا رد عمل یاد کرلیں اور ساتھ میں سابق بھارتی کرکٹر آکاش چوپڑا کا تاریخی جملہ کہ میں لکھ کردیتا ہوں ،بھارت پاکستان نہیں جائے گا لیکن پاکستان ورلڈکپ کیلئے بھارت آئے گا۔
ایشیا کپ 2023،بڑے یوٹرن کے بعد جیتنے کے نعرے،کیا ہم واقعی جیت گئے۔بھارت پاکستان نہ آیا تو ہم بھی بھارت نہیں جائیں گے۔سابق پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کے اپنائے گئے موقف کو آگے بڑھانے والے موجودہ چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی بڑے اطمینان کے ساتھ یو ٹرن لے چکے اور ایسا لے چکے کہ اس پر کوئی پشیمانی نہیں،ساتھ میں ایک ایسے ہائبرڈ ماڈل کے شادیانے بجانے میں لگے ہیں،جس کی کوئی بڑی اہمیت نہیں۔یہ بتانے کیلئے کہ 2008 کے بعد پاکستان میں پہلی بار ایشیا کپ کی جزوی میزبانی ہورہی ہے،ویڈیو پیغام جاری کیا۔پی سی بی میڈیا نے پریس ریلیز جاری کی اور زبردستی کے شادیانے بجائے جانے لگے۔لگتا ہے کہ ابھی بھی کوئی کمی رہ گئی تھی جو ان کو اب کل جمعہ کی دوپہر پریس کانفرنس کی ضرورت پڑی ہے۔نجم سیٹھی کل قذافی اسٹیڈیم لاہور میں نیا چورن بیچیں گے۔
ایشیا کپ 2023،پاکستان اور بھارت کے میچز کس تاریخ کو
سب سے پہلے اپنے پڑھنے والوں کو یہاں یہ بتاتے چلیں کہ ایشیا کپ 2023 کی میزبانی پاکستان کے پاس ہے۔یہ ایونٹ ستمبر2023 میں شیڈول ہے۔ورلڈکپ 2023 کی میزبانی بھارت کے پاس ہے اور یہ نومبر،دسمبر 2023 میں شیڈول ہے۔اسی طرح آئی سی سی کا ایک ایونٹ چیمپئنز ٹرافی 2025 بھی پاکستان میں ہونی ہے۔پاکستان کے پاس قدرتی طور پر بہتر شاٹ کھیلنے کے مواقع تھے۔
گزشتہ سال کے آخری عرصہ میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری جے شاہ جو کہ اتفاق سے ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں،نے یکطرفہ اعلان کیا کہ بھارتی ٹیم ایشیاکپ کھیلنے پاکستان نہیں جائے گی اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کے پاس نہیں رہے گی۔ایونٹ نیوٹرل وینیو پر جائے گا۔ظاہر ہے کہ یہ اعلان ون سائیڈڈ تھا۔ایشین کرکٹ کونسل پلیٹ فارم سے نہیں تھا۔چنانچہ اس وقت کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ نےسخت رد عمل دیا اور یہی کہا کہ اگر بھارت نہیں آئے گا تو پاکستان بھی ورلڈکپ کیلئے بھارت نہیں جائے گا۔بس اس اعلان کی دیر تھی کہ بھارت میں شور مچ گیا۔متعدد تبصروں میں نمایاں تبصرہ یہ تھا کہ ہم دیکھیں گے کہ پاکستان بھارت کیسے نہیں آتا۔ایک بھارتی وزیر نے کہا تھا کہ بھارت پاکستان نہیں جائے گا لیکن پاکستان ورلڈکپ کھیلنے بھارت آئے گا۔یہ انداز اور یہ چیلنج حاکمیت،طاقت اور قوت کےا ظہار کا واضح ثبوت تھا۔یہاں سے اپنے نعرے ویسے ہی بلند رکھے گئے۔اس کے بعد کرکٹ رجیم چینج ہوا۔نئے چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی آگئے۔ان کا بھی یہی موقف رہا۔کہیں بھی یہ نہیں تھا کہ حکومت سے رہنمائی لیں گے،ان سے ہدایات لیں گے ،وغیرہ وغیرہ۔
ایشیا کپ 2023،پاکستان لیٹ گیا،بھارت کےمیچز باہر،انگلینڈ بھی امیدوار،ورلڈکپ پر پی سی بی خاموش
درج بالا لنک اس آرٹیکل کا ہے جو کرک اگین نے 21 مارچ کو تحریر کیا تھا
ایشین کرکٹ کونسل کی پہلی میٹنگ فروری میں بحرین میں ہوئی۔بھارت نے دوٹوک ٹیم نہ بھیجنے کا فیصلہ سنادیا۔ایونٹ کا فیصلہ ایک ماہ کے لئے موخر کیا گیا۔پھر پی سی بی چیئرمین نے کونسل کے سامنے ہائبرڈ ماڈل رکھا اور اس کے بعد اس سے ورلڈ کپ میں اپنی روانگی کو مشروط کیا۔
ہائبرڈ ماڈل کیا تھا
پاکستان 4 میچز کی میزبانی کرے گا۔نیپال،بنگلہ دیش،افغانستان اور سری لنکا میں سے یہاں ٹیمیں ایک ایک میچ یا پاکستانی سرزمین پر ایشیا کپ کے 4 میچز مکمل کروادیں گی۔اس کے بعد بھارتی میڈیا پر اس کے مسترد ہونے کے چرچے ہوئے۔پھر آئی پی ایل 2023 فائنل کے موقع پر جے شاہ نے ہائبرڈ ماڈل مسترد کرنے کی تصدیق کی،اس کے ساتھ دیگر خبریں بھی آپ کی نگاہ سے گزرتی رہی ہیں۔
آئی سی سی ٹاپ لیڈر شپ کا پاکستان آنا،لاہور میں 2 روز قیام کرنا،ایشیا کپ فیصلے میں تاخیر کا ہونا،پھر 2 روز قبل ہائبرڈ ماڈل کا قبول کئے جانا،آج آفیشلی اس کے ہونے کا اعلان کیا جانا۔سب تاریخ میں درج ہوتا چلا گیا ہے۔
پاکستان کہاں کھڑا تھا،کہاں چلاگیا
تم نہ آئے توہم نہ آئیں گے سے بچوں کی ٹیموں کی ٹیموں کے آنے کی شرط تک کا سفر کامیاب سفر ہے؟ایشیا کپ کے 4 چھوڑیں،ایک سنگل میچ ہی پاکستان میں ہوتا لیکن وہ بھارت کھیل رہا ہوتا تو یہ کامیابی تھی۔جہاں تک تعلق ہے کہ 2008 کے بعد ایشیا کپ کی میزبانی لے لی۔سوال یہ ہے کہ 2008 سے پہلے بھی کبھی یہاں ایشیا کپ نہیں ہوسکا۔ایسا ایشیا کپ جس میں بھارت نہ ہو۔ایساایشیا کپ جس میں 13 میں سے صرف 4 میچز آپ کے پاس ہوں۔کیا وہ کامیابی ہے یا ناکامی۔اہم ترین سوال یہ ہے کہ بھارت کہاں ہے؟وہ تو نہیں کھیلنے آرہا تو کامیابی کیسے ہوگئی۔دوسری ناکامی یہ ہے کہ آپ میزبان ہونے کے باوجود نیوٹرل وینیو بھی اپنی مرضی کا نہ رکھ سکے۔بھارت اور سری لنکا نے اپنی من مانی کرلی۔
اب پاکستان کس معیار سے بھارت جائے گا۔آخر وہ کون سی ایسی بات ہے کہ جس کے بعد اس طرح جانا باعزت ہوگا۔سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستانی عوام اور فینز کا جو دبائو تھا،جس کا سہارالے کر پی سی بی ہر فورم پر برابری کی بات کرتا تھا تو کیا ان کی تسلی وتشفی ہوگئی یا پھر عوام اور فینز کا وہی مقام ہے جو راولپنڈی اور اسلام آباد سے ہم سیاسی افق پر دیکھتے ہیں۔
پی سی بی ایشیا کپ پر ہارگیا،ورلڈ کپ پر بھی بھارت کے سامنے بے بس،اعتراف نامہ جاری
کرک اگین نے بہت پہلے لکھا تھا کہ یہ سب ایک سکرپٹ ہے اور اس کے مطابق کہانی آگے بڑھ رہی ہے۔معاملہ ایسے سٹیج پر لایا جائے گا،جہاں سے واپسی اس انداز میں ہوگی کہ ہم جیت گئے۔جیتنے کے نعرے اب لگ بھی رہے ہیں۔ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور سوچیں کہ کیا واقعی ہم جیت گئے۔