کرک اگین سپیشل رپورٹ۔نقوی کے غلط فیصلے،رضوان ریٹائرمنٹ کی طرف،بابر اعظم بھی بڑے فیصلہ پر مجبور،بریکنگ نیوز۔کرکٹ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کے خلاف آپریشن مکمل۔دونوں کو باری باری سائیڈ لائن کردیا گیا ہے۔جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی 20 سیریز کے لیے پاکستان کی سائیڈ فائنل کر لی گئی ہے۔ نسیم شاہ کو شامل کر لیا گیا ہے۔ شاہین آفریدی کو آرام دیا جا رہا ہے جبکہ بابر اعظم کی واپسی کو فی الحال روکا جارہا ہے لیکن ایک بات سے پی سی بی ہل کر رہ گیا ہے،کیونکہ اگر ایسا ہوا تو رضوان فوری طور پر ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ سے احتجاج کے طور پر ریٹائرمنٹ لے سکتے ہیں ۔ محمد رضوان کو تو پہلے ہی کپتانی کے ساتھ ٹی 20 ٹیم سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ یہ عجیب و غریب فیصلے ہیں۔ پہلے محمد رضوان کو ون ڈے کپتانی سے ہٹایا گیا اور شاہین کو کپتان بنا دیا گیا اور اب ٹی 20 میں بھی کھلاڑیوں کی جگہ نہیں ہے۔
اصل کہانی
پاکستان کے کوچز جیسن گلیسپی اور گیری کرسٹن اپنے عہدوں سے اس لئے مستعفی ہوئے تھے کہ اختیارات سلب کرلئے گئے،وہ چلے گئے۔عاقب جاوید آئے اور تمام اختیارات اپنے ساتھ پی سی بی ہیڈ کو دے ڈالے۔اب شان مسعود بے اختیار کپتان موجود۔سلمان علی آغا بھی بے اختیار اور شاہین آفریدی بھی بے اختیار ہیں۔محمد رضوان کا معاملہ مرضی کا انتخاب کرنا تھا جو پسند نہیں آیا۔
اگلی کہانی یہ بن رہی ہے کہ محمد رضوان کو ون ڈے ٹیم سے بھی باہر کیا جائے۔ٹی 20 سے پہلے ہی نکال چکے۔ٹیسٹ کرکٹ سال بھر کی ہوتی ہی کتنی ہے،یوں یہ خود ہی باہر ہوجائیں گے۔میرٹ اگر ہوتا تو شان مسعود آج کپتان نہ ہوتا۔ان کی قیادت مین 12 میں سے 9 ٹیسٹ ہارے گئے تھے۔رضوان نے تو 20 ون ڈے میچز میں سے 11 جیت رکھے تھے۔میرٹ نہیں رہا۔
محمد رضوان جلد اور بابر اعظم بہت قریب ریتائرمنٹ لے سکتے ہیں
ذمہ دار ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ سے بابر اعظم اور محمد رضوان جلد ہی ریٹائرمنٹ لے سکتے ہیں۔محمد رضوان کا فوکس ٹی 20 لیگز پر ہوگا۔بابر اعظم خود کو ٹی 20 لیگز کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ تک شاید رکھیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ حکام کو آگاہی ہوچکی ہے۔صورتحال کو سنبھالنے کیللئے وقتی طور پر وہ کوئی بھی یو ترن لےسکتے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ نقوی کو فروری 2024 میں پی سی بی کے چیئرمین کے طور پر نامزد کیا گیا ۔ پی سی بی کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے دور کے صرف 1.5 سال میں کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جنہوں نے پاکستان کرکٹ کا رخ موڑ دیا۔
بابر کو مقرر کیا، بابر کو ہٹا دیا
محسن نقوی کا دور فروری 2024 میں شروع ہوا تھا اور اس سے قبل بابر اعظم نے 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ کی وجہ سے پاکستان کی کپتانی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔محسن نقوی نے اعظم کو وائٹ بال کرکٹ میں واپس آنے کی تاکید کی اور دائیں ہاتھ کے بلے باز کو دوبارہ پاکستان کا کپتان مقرر کیا اور انہیں کہا کہ وہ 2024 کے ٹی 20ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کی قیادت کریں۔ورلڈ کپ میں بھی مایوس کن کارکردگی کے بعد، بورڈ نے پھر اعظم پر دباؤ ڈالا کہ وہ وائٹ بال کی کپتانی چھوڑ دیں۔ ٹی ٹوئنٹی میں شاہین آفریدی اور ون ڈے میں محمد رضوان نے جگہ لی۔
شاہین کو ہٹایا، شاہین کو دوبارہ مقرر کیا
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، جب نقوی اقتدار میں آئے تو شاہین آفریدی ٹی 20کے کپتان تھے، لیکن نیوزی لینڈ کی سیریز میں پانچ میں سے چار شکستوں کے بعد، بائیں ہاتھ کے سیمر کو بغیر کسی لمبی رسی کے کپتان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔اس فیصلے پر شدید تنقید کی گئی کیونکہ آفریدی کو صرف ایک سیریز کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا تھا۔
رضوان کو مقرر کیا، رضوان کو ہٹا دیا
رضوان پی سی بی کے غیر واضح موقف کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بابر کی جگہ ون ڈے کپتان کی حیثیت سے کام کیا اور جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کو گھر سے دور شکست دے کر بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جو کسی بھی کپتان کے لیے بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مایوس کن چیمپئنز ٹرافی کے بعد، پی سی بی نے بغیر کسی مناسب وضاحت کے رضوان کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا اور 2027 ون ڈے ورلڈ کپ سے دو سال قبل ایک اہم فیصلہ لیا۔
کرسٹن اور گلیسپی کو مقرر کیا، کرسٹن اور گلیسپی کو باہر کرنے پر مجبور کیا
کوچنگ کے معاملے میںنقوی کے دور میں لیا گیا پہلا فیصلہ گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی کو وائٹ بال اور ریڈ بال کوچ کے طور پر بھرتی کرنا تھا۔ تاہم، دونوں کوچز نے اپنی مدت پوری کیے بغیر ہی عہدہ چھوڑ دیا اور پی سی بی کے ساتھ سخت نوٹس پر بھی۔جیسن گلیسپی نے محسن نقوی کی قیادت والے بورڈ پر ٹیم کے انتخاب جیسے اہم فیصلوں میں ان کو شامل نہ کرنے کا الزام بھی لگایا اور بورڈ پر واجبات ادا نہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ کرسٹن نے صرف چار ماہ بعد ہی اس کردار کو چھوڑ دیا، جب کہ گلیسپی نے چھ ماہ میں ملازمت چھوڑ دی۔
نقوی کا انداز تباہی کا بہترین نسخہ کیوں
اگر ہم دنیا کی تمام کامیاب ٹیموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان کی ٹیم میں استحکام ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بالکل برعکس ہے کیونکہ بار بار کاٹنا اور تبدیلیاں ماضی میں کسی ٹیم کے لیے اچھا نہیں ہوئیں۔ مزید برآں، پاکستان کے لیے، عالمی کرکٹ میں ان کے کامیاب دور میں بھی کھلاڑیوں نے عمران خان کی قیادت پر بھروسہ کیا جس کے نتائج دیکھنے میں آئے۔موجودہ وقت میں، ہر سہ ماہی میں ایک پاکستانی کپتان کو ہٹایا جا رہا ہے اور کھلاڑی کسی خاص فرد کو اپنا لیڈر سونپنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ، یہ بات ختم نہیں ہوئی کیونکہ ایسی اطلاعات ہیں کہ سلمان آغا کو بھی برطرف کیا جا رہا ہے اور فروری میں 2026 کے ورلڈ کپ سے چند ماہ قبل ایک نئے ٹی20 کپتان کا امکان ہے۔
