عمران عثمانی کی خصوصی تحریر
پاکستان اورانگلینڈ کے درمیان ایک اور ٹیسٹ سیریز شروع ہونے کو ہے۔اس بار 17 برس بعد پاکستان کے میدان آباد ہونے جارہے ہیں جو اپنی جگہ ایک منفرد سی بات ہے لیکن چونکہ درمیان میں پاکستان میں دہشت گردی واقعات اور نیوٹرل وینیو کی وجہ سے کرکٹ ممکن نہ تھی۔اس بار انگلش ٹیم کی یہ سیریز اس لئے بھی یقینی ہے کہ یہی ٹیم ستمبر اکتوبر میں 7 ٹی 20 میچزکراچی اور لاہور میں کھیل چکی ہے۔اب ٹیسٹ سیریز ہے،۔ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا عنوان ہے۔بظاہر دونوں ٹیموں میں چڑنے اور لڑنے والی کوئی بات نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیسٹ سیریز مختلف واقعات سے بھری ہے۔اسے تنازعات بھی کہہ سکتے ہیں۔واقعات بھی اور اخلاقیات سے عاری کام بھی۔اس کے عنوانات قائم کیئے جائیں تو قریب ایک درجن بن جائیں گے۔
درجن سے زائد واقعات
امپائرز پر حملے کے متعدد واقعات،لڑائی،دھوکا دہی،عین وقت پرفرار،قربانی کے بدلہ ذاتی عناد اور بغض،میچ فکسنگ،سپاٹ فکسنگ،بال ٹیمپرنگ،امپائرز فکسنگ،ڈیپوٹیشن،گرفتاری،کیسز،جیل،سزائیں اور گالم گلوچ۔یہ عنوانات ہیں،اس کے تحت درجن سے زائد واقعات ہیں۔دنیا کے کسی ٹیسٹ ملک کےدوسرے کے ساتھ ایسے واقعات نہیں ہوئے۔حتیٰ کہ پاکستان اور بھارت میں بھی نہیں،یہاں تک کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کی روایتی سیریز میں بھی نہیں۔سوال ہوگا کہ پھر پاکستان اور انگلینڈ میں کیوں۔میں اگر ایمانداری سے اس کا درست عنوان قائم کروں تو یہ آقا اور غلام کا برتائو ہے۔کرکٹ غلامی کی کہانی ہے۔غلاموں کی جرات پر جھلاہٹ ہے۔مالک اور اوقات کا کی سوچ ہے۔مالک کی ذہنیت اور غلامی کے طوق کی نشانی ہے۔کیوں نہ ہو،جب ہمارے ہاں سیاست سے لے کر معیشت تک اور اہم تقرریوں سے لے کر بڑی تنزلیوں تک کے واقعات مشکوک انداز میں ہوں،جب بڑے بڑے مطلوب لوگوں کو پناہ اس دیس میں ملے تو اس کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی سٹیج پر آنکھ اٹھا تو سکتے ہیں لیکن گھور نہیں سکتے۔سلام تو کرسکتے ہیں لیکن سوال نہیں۔
پہلا بڑا جھگڑا،امپائر اغوا،ڈی پورٹ کا حکم،پھر معافی
پاکستان اور انگلینڈ کی آفیشل ٹیسٹ سیریز تو 1954 میں شروع ہوتی ہے ،جب قومی ٹیم وہاں پہلی بار گئی تھی۔انگلش ٹیم کا پاکستان کا پہلا آفیشل دورہ 1961 میں ہواتھا۔غیر سرکاری دورہ 1956 میں ہوا تھا۔اس زمانہ میں انگلش ٹیم ایم سی سی اے کے نام سے پاکستان آئی۔پشاور ٹیسٹ میں امپائرز کے فیصلے پسند نہیں آئے ،پھر کیا تھا،گرائونڈ کی چرب زبانی سے سکون نہ ملا تو جہاں ہوٹل میں یہ قیام پذیر تھے۔وہاں امپائر تھے،ان میں ادریس بیگ بھی تھے۔پھر کیا تھے،انگلش کھلاڑیوں نے گھیر لیا۔انہیں زدوکوب کیا گیا،پانی ڈالا گیا۔ڈرایا گیا،دھمکایا گیا اور پھرگالیاں دی گئیں۔پاکستان کے کپتان عبدالحفیظ کاردار تھے،انہوں نے حریف کپتان ڈونلڈکار سے بات کی،بات نہ بنی توکرکٹ بورڈ سیکرٹری کوبلایاگیا،انگلش ٹیم نے ان کو بھی گالیوں سے نوازا۔معاملہ سنجیدہ ہوا تو اس کی رپورٹ پی سی بی پیٹرن انچیف صدرپاکستان سکندرمرزاکو دی گئی۔انہوں نے بڑی دلیری دکھائی اور حکم جاری کردیا کہ ٹیم کو پاکستان سے نکال دیا جائے۔انگلش ٹیم کو ڈی پورٹ کردیاجائے۔پھر کیا تھا۔ایم سی سی کے صدر لارڈ الیگزینڈر کو بتایاگیا تو ان کو یہ ادارک ہواکہ ڈی پورٹیشن بڑی سبکی ہوگی۔فوری معافی مانگ لی۔کارروائی کا وعدہ ہوا۔پاکستان نے دل بڑا کیا۔باہر نہیں نکالا۔انگلش کرکٹ بورڈ نے بھی بعد میں ٹیم کی واپسی پر انضباطی کارروائی کی اور کپتان ڈونلدکو قیادت سے ہمیشہ کے لئے سبکدوش کردیا۔حملہ آور پلیئرزکا بھی کیریئر چند سالوں میں تمام کردیا۔انگلش کرکٹ ٹیم کو ڈی پورٹ کرنے کا حکم ہونا ہی ایک منفرد ،پہلا،اب تک کا کرکٹ تاریخ کا آخری بڑا واقعہ ہے۔
عمران خان کا انگلینڈ میں شکوہ،گیٹنگ کا پاکستان میں جھگڑا
پاکستان اور انگلینڈ کی شروعات اچھی نہیں تھیں۔1961 میں انگلش ٹیم پاکستان میں سیریز جیت گئی تو تسکین ایسی تھی کہ نوبت ہی نہ آئی۔80 کے عشرے تک پاکستان انگلینڈ کے سامنے بےبس تھا۔سیریز ڈرا تھیں یا شکست تھی۔پاکستان کوپہلی ٹیسٹ سیریز کی فتح 1984 میں اپنے ملک میں ملی تو یہ انگلش ٹیم اوراس کے کیمپ کے لئے ناقابل یقین بات تھی۔1987 میں پھر پاکستان انگلینڈ میں پہلی بار عمران خان کی قیادت میں ٹیسٹ سیریز جیتی تو غصہ دوبھر ہوگیا۔اس سیریز میں امپائرنگاتنی خراب تھی کہ عمران خان اور پاکستان کی جانب سے بڑے شکوے ہوئے۔اس کے بعد اسی سال جب مائیک گیٹنگ کی قیادت میں ٹیم پاکستان آئی تو امپائر شکور رونا کے ساتھ گیٹنگ کا جھگڑا ایک بڑی تاریخ بن گیا۔فیلڈر کی غلط تبدیلی پر امپائر کا فیصلہ گیٹنگ کو پسند نہ آیا۔گیٹنگ نے تکرار کی۔امپائر نے تیسرے روز امپائرنگ سے انکار کیا۔کھیل اس روزکا ضائع ہوگیا۔
چنگاریاں بھڑک اٹھیں،بال ٹیمپرنگ
اب چنگاریاں بھڑک اٹھی تھیں۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب پاکستان نے اسی انگلینڈ کو 1992 ورلڈکپ فائنل میں شکست دے دی،گزشتہ سیریز اور ورلڈکپ شکست کا رد عمل اسی سال پاکستان کی انگلینڈ کی 5 میچزکی ٹیسٹ سیریز میں سامنے آیا،پوری سیریز میں امپائرنگ کا معیار خراب رہا۔تکرار رہی لیکن پاکستان نے جاوید میاں داد کی قیادت میں سیریز 1-2 سے جیتی تو وسیم اکرم اور وقار یونس جن کو ٹو ڈبلیوزکا ٹائٹل ملا تھا،ان پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگ گیا۔ان کو خوب لتاڑا گیا۔بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ بورڈ اس کا موثر جواب نہ دے سکا۔یہ الگ بات ہے کہ انگلینڈ کے آل رائونڈراین بوتھم عمران خان پر بھی یہی لزام لگابیٹھے۔پھر عمران خان نے انگلینڈ عدالت میں ان کے خلاف کیس کیا اور جیت لیا۔یوں انگلش میڈیا کی بھڑاس اور تنقید کو جواب تو مل گیا لیکن وہ پھر بھی باز نہ آئے۔
میچ فکسنگ
پاکستان میں 90 کے عشرے میں انگلش ٹیم نے جو سیریز کھیلیں،ان میں میچ فکسنگ کا شور اٹھا۔انگلینڈ کے کچھ پلیئرز آف دی ریکارڈ لپیٹ میں آئے لیکن کوئی بڑی مثال نہیں بنی۔
اندھیرے میں ٹیسٹ،زبردستی کی جیت
پاکستان کے دورے میں 2000 کی سیریز میں کراچی ٹیسٹ جس طرح اندھیرے میں کھلایا گیا اور انگلینڈ سال بعد میں پاکستان میں سیریز جیتا،وہ اپنی جگہ ایک متنازعہ شو تھا۔
بال ٹیمپرنگ پر جرمانہ،واک اوور،کمیشن،میچ کا غوا
پھر 2006 کا اوول ٹیسٹ آیا،جب پاکستان پر آسٹریلیا کے بدنام زمانہ امپائرڈیرل ہیر نے بال ٹیمپرنگ الزام پر 5 رنزکا جرمانہ کیا۔پھر کیا تھا اس وقت کے کپتان انضمام الحق ٹیم ہی باہر لے گئے۔زبردست احتجاج ہوا۔امپائر نے بھی واک اوور کال دے کر انگلینڈ کے حق میں میچ دے دیا۔پی سیبی نے سٹینڈ لیا،بعد میں آئی سی سی نے کمیشن بنایا۔لندن میں سماعت ہوئی۔پاکستان ٹیمپرنگ الزام سے بری قرار پایا لیکن میچ کا نتیجہ اب بھی انگلینڈ کے حق میں ہے۔
سپاٹ فکسنگ،سزائیں،قید اور معطلیاں
اور 2010 کا پاکستان کا انگلینڈ کا دورہ نہایت ہی برا رہا۔شکستا پنی جگہ لیکن اس وقت کے کپتان سلمان بٹ،پیسرز محمد آصف اورمحمد عامر سپاٹ فکسنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔پھر کیا تھا،ایک طوفان تھا۔ایک ہیجان تھا۔عبوری معطلی ہوئی۔جرم سرزد ہوا۔لندن کی عدالت نے کیس سنا۔تینوںکو جیل کی سزائیں ہوئیں۔معطلیاں ہوئیں۔سلمان بٹ اور آصف کا کیریئر تمام ہوا۔عامر کم عمر ی کےباعث 6 سال بعد واپس آئے لیکن اب بھی ٹیم سے پھر ڈراپ ہیں۔
قربانی کا جواب دھوکا
پاکستان کرکٹ ٹیم نے 2020 میں اس وقت انگلینڈ کا دورہ کیا،جب کووڈ عروج پرتھا۔انگلینڈ میں ہزاروں کیسز روزانہ کی بنیاد پر تھے۔اموات تھیں لیکن ٹیم نے یہ دورہ کرکے ایک بڑا احسان کیا تھا۔بڑی واہ واہ ہوئی لیکن اس کے ایک سال بعد انگلینڈ نے 2021 میں پاکستان کا ٹی 20 سیریز کا دورہ عین وقت پر جھوٹ کی بنیاد پر ملتوی کیا تو ایک بار پھر لڑائی ہوگئی۔اس بار پی سی بی چیئرمین رمیزراجہ نےانگلینڈ سمیت نیوزی لینڈ کے خلاف سخت اسٹینڈ لیا ۔اس کے جواب میں انگلینڈ بیک فٹ پر گیا اور 2 ماہ قبل پاکستان میں ٹی 20 سیریز کھیل گیا۔اب ٹیسٹسیریز کے لئے تیار ہے۔
پاکستان ایک محکوم یا غلام ٹیم
یہ واقعات ایسے ہیں کہ ان میں انگلش ٹیم کا امپائر کو اولین واقعہ میں اغوا کرنا شامل تھا۔پھر امپائرنگ پر تنقید،پھر امپائر سے تکرار،پھر بال ٹیمپرنگ،پھر میچ فکسنگ،پھر بد دیانتی،پھر میڈیا وار،پھر واک اوور جیسے فیصلے،پھر سپاٹ فکسنگ کیس،پھر پاکستان کی قربانی بھرا دورہ،انگلینڈ کا انکار اور اس دوران چھیڑ چھاڑ۔یہ درجن بھرواقعات ہیں۔جس سے کیا اندازا ہوتا ہے کہ جیسے انگلش ٹیم،مزاج آمرانہ رویہ کی حامل ہو۔پاکستان ایک محکوم یا غلام ٹیم کے درجہ میں۔ایسی کرکٹ اور ایسا تعلق یا ایسا جھگڑا میری حاکمیت نہیں کہلائے گا تو کیا کہلائے گا۔
پی سی بی آج جرات کرے گا
آج جب انگلینڈ پاکستان میں تازہ ترین ٹی 20 سیریز جیت گیا ہو،ورلڈکپ 1992 کی شکست کا بدلہ اسی ماہ ٹی 20ورلڈکپ فائنل کی فتح کے بعد لے چکا ہو۔اپنے ملک میں آخری ٹیسٹ سیریز بھی جیتی ہوتو موڈ کیسا ہوگا۔ظاہر ہے کہ خوشگوار اور شاندار۔اوپر سے 17 سال بعد کے ٹیسٹ دورے پر صدارتی سکیورٹی کا نشہ ہوگا تو وہ کہاں ہونگے۔ادھر پاکستان اپنی مرضی کی اسپن وکٹیں یا انگلینڈ کے لئےناسازگار وکٹیں بنانے کی جرات کرے گا اور کیا ٹیسٹ سیریز 0-3 سے جیتنے کی کوشش کرے گا؟اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو یقین رکھیں کہ رواں عشرے کا پہلا تنازعہ پھر آئے گا۔پھر منہ ماری بھی ہوگی اور وہی پرانا رویہ عود کرآئے گا کہ جرات کیسی اور حاکم کے سامنے برابری یا برتری کیسی۔
انگلینڈ کی پاکستان میں 8 سیریز،9واں دورہ،حیران کن نتائج
انگلینڈ سیریز،مجموعی احوال،پاکستان میں ٹیسٹ میچز ریکارڈ،ایک امر تشویشناک
پاکستان انگلینڈ ٹیسٹ سیریز،ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ فائنل کیسے ممکن،تمام امکانات