ٹیسٹ کرکٹ گزشتہ سال نئے جوبن پر لیکن پھر بھی فریب،اس سال کمزور،آگے کچھ کیلئے فائدہ،کچھ کیلئے موت،کرکٹ کی تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ ملتان میں رواں سال کے ابتدائی ٹیسٹ میچوں میں سے ایک ٹی 20 جیسے فارمیٹ کی شکل میں ہے،ون ڈے کرکٹ بھی اس سے بہتر اور پرسکون انداز میں ہوتی ہے لیکن یہ کیسی ٹیسٹ کرکٹ ہے جو کہیں سے کہیں جارہی ہے۔میچ 2 روز میں ختم ہوسکتا ہے۔پچھلے سال2024 میں ٹیسٹ کرکٹ میں 3.62 فی اوور کے حساب سے رنز بنائے گئے جوپہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔نیوزی لینڈ نے بھارت کو اپنے ہی میدان پر وائٹ واش کیا، بنگلہ دیش نے پاکستان کو گھر میں شکست دی اور جنوبی افریقہ نے پاکستان کے خلاف باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں اعصاب شکن کامیابی کے ساتھ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں جگہ بنالی۔سال کے شروع میں آسٹریلیا ویسٹ انڈیز سے ہارگیا۔
اس کے باوجود پانچ روزہ کھیل کے مستقبل کے بارے میں آنے والی بات چیت پریشان کن ہے۔پانچ روزہ کھیل کا مستقبل کیا ہے۔ٹیسٹ کرکٹ کو مضبوطی سے ایجنڈے پر دو درجوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ زلزلہ کی شکل میں دودرجاتی نظام طے ہونے جارہا ہے۔
ٹیسٹ کرکٹ کے لیے ممکنہ سات ٹیموں کی فرسٹ ڈویژن: جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انگلینڈ، انڈیا، نیوزی لینڈ، سری لنکا اور پاکستان۔
سیکنڈ ڈویژن: ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش، آئرلینڈ، افغانستان اور زمبابوے۔
ٹیسٹ کرکٹ آسٹریلیا سمیت تمام ممالک میں ایک فریب ہے۔ٹیسٹ کرکٹ ایک خوبصورت وہم ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں کرکٹ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے اس قسم کی حمایت کہیں نظر نہیں آتی۔چونکہ بھارت کرکٹ کا مرکز ہے اور ٹوئنٹی کھیل کی مالی ریڑھ کی ہڈی اور اولمپکس میں توسیع، امریکہ اور سعودی عرب جیسے منافع بخش محاذوں کو فتح کرنا نئے چیلنجز مین ہے، اس لیے ہندوستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے تین بڑے آئی سی سی کے نئے سربراہ جے کے ساتھ سطحی بحث کی قیادت کریں گے۔
تین سرکردہ ممالک کے درمیان مزید بلاک بسٹر سیریز کے امکانات ہیں ۔کچھ کے لیے دو درجے کے نظام کا زبردست فائدہ ہے۔براڈکاسٹرز اور بین کاؤنٹرز کو چکرا دیا گیا ہے۔پہلے ہی انگلینڈ، بھارت اور آسٹریلیا کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ٹیسٹ کھیلتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف کسی اور سے زیادہ۔ ورلڈ کرکٹرز ایسوسی ایشن پہلے ہی یہ دلیل دے چکی ہے کہ بگ تھری کرکٹ بہت زیادہ ہے۔لیکن تینوں کے لیے 2027 سے آگے کے شیڈول کو تبدیل کرنا ایک تین سالہ دور میں اپنے درمیان زیادہ سے زیادہ 30 ٹیسٹ کروانا(پانچ ٹیسٹ، ہوم اینڈ اوے سیریز پر مبنی) کھیلنا دو درجے کے نظام میں ایک حقیقی امکان ہے۔
باقی ممالک کے لیے یہ نظام قاتل ہوگا۔ آئی سی سی کے مکمل اراکین جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور زمبابوے ۔ان کی اپنی ہوم ٹیسٹ سیریز تقریباً ہمیشہ خسارے کا شکار ہوتی ہیں جب تک کہ وہ کسی ایک کی میزبانی نہ کریں۔ویسٹ انڈیز کے پاس تقریباً دو دہائیوں سے ٹیسٹ پر ٹی ٹوئنٹی کا انتخاب کرنے والے کھلاڑی ہیں، یہاں تک کہ آئی سی سی کے سبکدوش ہونے والے چیئرمین گریگ بارکلے نے حال ہی میں سوچا کہ کیا ویسٹ انڈیز اپنی موجودہ شکل میں پائیدار ہے۔ کیا اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے ہر جزیرے کو الگ لائیں۔
دنیا میں کتنے ٹیسٹ 2 روز میں،پاکستان میں پہلے کبھی ایساہوا،ویسٹ انڈیز آخری بار یہاں کب میچ جیتا
درحقیقت بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا ہی وہ ہیں جن کے پاس طاقت اور وسائل ہیں ۔ ٹیسٹ ممالک کی تقسیم کو آئی سی سی کی سطح پر پہلے بھی پیش کیا جا چکا ہے۔مائیکلز وان اور ایتھرٹن سے لے کر روی شاستری اور ویسٹ انڈیز کے آئیکن مائیکل ہولڈنگ تک دو درجہ نظام کے حامی ہیں ۔ہولڈنگ کی چھ طرفوں کے دو ڈویژنوں کی تجویز کے مطابق سرفہرست ٹیموں کو تین یا چار سال کے چکر میں کم از کم ایک بار ڈویژن کے دو اطراف کا دورہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت انگلینڈ موجودہ ڈبلیو ٹی سی سٹینڈنگ کی بنیاد پر 7 ویں نمبر پرتھا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ ٹائر ٹو میں ہوگا۔ انگلینڈ کو دوسرے درجے پر جاتے ہوئے نہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔۔ کرکٹ کی دولت کا ایک بڑا پھیلاؤ طویل عرصے سے اس کی سب سے بڑی طاقتوں کو دیا گیا ہے۔ہندوستان نے اپنے ایونٹس کے لیے آئی سی سی کے تازہ ترین $US4 بلین ($6 بلین) کے حقوق کے معاہدے کا 38 فیصد دعویٰ کررکھا ہےجو کسی بھی دوسرے کرکٹنگ ملک سے زیادہ آمدنی پیدا کرتی ہے جس کا خواب کبھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔خدشہ یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کا اگلا دور جو کچھ بھی نظر آتا ہے، صرف فنڈنگ اور شیڈولنگ کی اجارہ داری کو آگے بڑھائے گا۔
سپن پچز ہی جیتنے کا طریقہ،باہر کی دنیا ہمارے ساتھ کیا سلوک کررہی،رضوان پھٹ پڑے
سال2024 ٹیسٹ کرکٹ کیلئے ایک دلکش سالنایا گیا اور ریکارڈ پر بہترین میں سے ایک ہے۔کیا 2025 فارمیٹ کے مستقبل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ یا اسے مزید کمزور کر ےگا۔