عمران عثمانی
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان تاریخی ٹیسٹ سیریز کا آغاز کل 4 مارچ سے راولپنڈی میں ہورہا ہے۔اتفاق سے 24 سال قبل جب آسٹریلیا نے آخری بار پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اس نے اسی میدان سے سیریز کا آغاز کیا تھا،وہ سیریز اور وہ ٹیسٹ کینگروز کے لئے خوشگوار اور پاکستان کے لئے نہایت افسوسناک رہے۔
اب چونکہ راولپنڈی سے ہی ٹیسٹ سیریز شروع ہوگی تو آخری میچ جو ان 2 ممالک نے یہاں کھیلا تھا،اس کا ذکر بنتا ہے۔تذکرہ کے طور پر یہ بھی ریکارڈ کا حصہ بنالیں کہ پاکستان نے اسی میدان میں 1994 میں پہلا ٹیسٹ آسٹریلیا کے خلاف کھیلا تھا جوڈرا رہا تھا،اس اعتبار سے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم راولپنڈی میں پاکستان اور آسٹریلیا نے جو 2 ٹیسٹ میچزکھیلے ہیں،پاکستان کوئی نہیں جیتا۔ایک میچ ڈرا رہا،ایک میں آسٹریلیا اپنے نام فتح درج کرواگیا۔
پاکستان نے 24 برس قبل پنڈی کی پچ کو اسپن کے جوئے کی نذر کیا تھا۔مشتاق اور ثقلین کے ساتھ تیسرا اسپنر محمد حسنین کھلایا گیا۔ٹاپ کے اسپنرز فارم میں نہ رہے،نئے گیند باز ناکام ہوگئے۔
پاکستان نے 30 ستمبر 1998 کو ٹاس جیتا،پہلے بیٹنگ کا اعلان کیا۔کپتان عامر سہیل کا یہ فیصلہ اس لئےسود مند رہا کہ اوپنر سعیدا نور سنچری کرنے میں کامیاب ہوئے،انہوں نے145 رنزکی اننگ کھیلی۔لیفٹ ہینڈ اوپنر آئوٹ ہونے والے 9 ویں بیٹر تھے۔یہ فیصلہ اس لئے گلے پڑا کہ اس پچ نے بتایا کہ پہلے روز نئی پچ کی وجہ سے جو فایدہ ہوسکتا تھا،وہ پاکستان نے اگلوں کو منتقل کردیا،آخری2 روز میں جس کا فائدہ پاکستان اٹھانے کا سوچ رہا تھا کہ چوتھی اننگ میں کھیلنا مشکل ہوگا،اس کی نوبت نہیں آئی،دوسرے اور تیسرے روز کی پچ بیٹنگ کے لئے مزیدار ہوگئی تھی،وہ وقت آسٹریلیا کےنام رہا۔پاکستان کو سعید انور کی بیٹنگ اس لئے بچاگئی کہ وہ کھڑے تھے۔ایک موقع پر52 اوورز میں 147 پر اسکے 8 کھلاڑی آئوٹ تھے۔معین خان کے 39 رنز دوسرا بڑا انفرادی اسکور تھا،اس سےا ندازا لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی بیٹنگ لائن کتنی ناکام ہوئی۔عامر سہیل4،انضمام الحق 14 اور محمدوسیم 1 کرسکے۔سلیم ملک 10 اور اظہر محمود 16 کرگئے۔9 ویں وکٹ پر مشتاق احمد نے سعید انور کو 120 رنزکی شراکت کا جو موقع دیا اس سے پاکستان نے 97 اوورز کھیل لئے،اس کا مطلب تھا کہ دن کے دوسرے حصہ تک اس کی اننگ گئی۔مشتاق نے 136 بالز پر 26 اسکورکئے تھے۔
کورونا کا پاک آسٹریلیا سیریز پر حملہ جاری،فواد کا ٹیسٹ مثبت،پہلے میچ سے باہر
اب یہ دیکھیں کہ یہاں پہلے روز کوئی پیسر کارگر نہ رہا،لیگ بریکر سٹورٹ میک گل نے66 رنزکے عوض 5 وکٹ کے ساتھ میدان مارگئے۔میک گراتھ کو 2 وکٹیں ملیں،دنیا کے بہترین پیسر کو اس کے لئے 26 اوورز کروانا پڑے۔83 اسکور کی مار بھی کھائی۔
پاکستان کےبنیادی پیس اٹیک نے آسٹریلیا کی 3 وکٹیں صرف 28 پر اڑادیں،ان میں کپتان مارک ٹیلر 3 کرسکے۔مارک واہ اور ایڈم گلکرسٹ تو کھاتہ بھی نہیں کھول سکے۔2 وکٹیں وسیم اکرم اور ایک مشتاق احمد کو ملی،اس کے بعد اوپنرمائیکل سلیٹر اور سٹیواہ نے چوتھی وکٹ پر 198 اسکور کااضافہ کردیا،بات یہاں تک ہی نہیں رکی۔ڈیرن لی مین اوراین ہیلی بھی پہاڑ بن گئے۔اندازاکرلیں کہ سلیٹرنے 108،سٹیواہ نے 157،ہیلی نے 82 اور لی مین نے 98 کی اننگز کھیل ڈالیں۔آسٹریلیا 173 سے زائداوورز کی بلے بازی میں 513 اسکور کرکے آئوٹ ہوا۔پاکستان کے پیسرز تو پیسرز اسپنرز بھی ناکام گئے۔وسیم اکرم شروع کی 2 وکٹوں کے بعد مزید ایک آئوٹ کرسکے،اس طرح انہوں نے111 رنز دے کر 3 وکٹیں لیں۔مشتاق احمد اور ثقلین مشتاق نے کل ملا کر 200سے کہیں زیادہ اسکور دے کر ٹوٹل 4 وکٹیں لیں۔یہ پاکستان کے ٹاپ اسپن اٹیک کی کمزوری،ناکامی تھی۔
آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ،پاکستان آسٹریلیا کو ہراکر نمبر ون بن سکتا،ممکنہ کنڈیشنز
آسٹریلیا کو 244 رنزکی بڑی سبقت ملی تھی۔یہچوتھے روز کا کھیل جاری تھا لیکن یہ کیا۔2گھنٹے اور 20 منٹ میں ہی محض 34 اوورز کی بیٹنگ میں پاکستان نے68 پر 6 وکٹیں گنواکر ہار مان لی تھی۔بس پھر جب 5واں روز شروع ہوا توآسٹریلیا 1 وکٹ کی فتح کی دوری پر تھا،میزبان ٹیم کی اننگ 145 پر سمیٹ دی،سلیم ملک کے 52 رنزکے سواکوئی کھیلنے کو تیار نہ ہوا۔اس بار بھی آسٹریلیا کے لیگ اسپنر میک گل کامیاب ہوئے،انہوں نے 47 رنز دے کر 4 وکٹیں لیں۔پاکستان یہ میچ اننگ اور99 رنز سے ہارگیا۔9 وکٹ لینے والے میک گل کی بجائے 157 رنزکی شاندار اننگ کھیل کر آسٹریلیا کو تباہی سے بچانے والے سٹیوا پلیئر آف دی میچ قرار پائے۔اسی میچ میں وکٹ کیپر این ہلی نے اپنے ہم وطن راڈنی مارش کے زیادہ 353 شکار کا ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔
اس کہانی سے 2 باتیں کلیئر ہوئی ہیں۔پاکستانی ٹیم میزبان تھی،کپتان عامر سہیل اور ان کی ٹیم وکٹ کو سمجھ نہیں سکی۔بیٹنگ اور اسپن ٹریک سمجھ کر 3 اسپنرز کھلائے گئے۔یہ بات گلے پڑے۔چوتھے اسپنر عامر سہیل بھی 23 اوورزکرگئے۔ثقلین نے 42 اور مشتاق نے 41 اوورز کئے۔محمد حسنین نے 20 اوورز ڈالے۔سلو لیفٹ آرم آف بریکر کی ناکامی نمایاں تھی۔آسٹریلیا کی ایک اننگ کے 174 اوورز میں سے پاکستان کی جانب سے126 اوورز اسپنرز نے ڈالے۔ناکام رہے۔دوسرا فیصلہ ٹاس سے متعلق تھا جو غلط ہوگیا۔
آج 24 سال بعد اسی راولپنڈی کی بظاہر سفید دکھائی دینے والی پچ اسپنرز کا چکمہ دے رہے ہے۔آسٹریلیا کے لئے 400 سے زائد ٹیسٹ وکٹ لینے والے اسپنر نیتھن لائن اسے دیکھ کر اب بھی اسپن ماننے کو تیار نہیں ہیں تو پھر کیا ہوگا۔پاکستان ساجد خان اور نعمان علی کے ساتھ جائے گا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔پسرز میں اگر شاہین اور نسیم ہی سر فہرست دستہ بنتے ہیں تو کیا مقابلہ جڑتا بھی ہے۔اس حوالہ سے اگلی رپورٹ کا انتظار کیجئے۔یہاں صرف اتنا کہ پچ کا دھوکا مت کھائیں۔