شاہد آفریدی کا نام نہاد ترجمان کو کڑا جواب
| | | |

شاہد آفریدی کا نام نہاد ترجمان کو کڑا جواب

اسلام آباد ،کرک اگین رپورٹ

شاہد آفریدی کا نام نہاد حکموتی ترجمان کو کڑا جواب۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے  نام نہاد حکومتی ترجمان کی کلاس لگالی ہے۔پاکستان میں اس وقت اندھا دھند ٹیکس کی بھرمار ہے۔بجلی کے بلز میں ایسے ٹیکس لگ رہے ہیں کہ اس کا تصور ہی نہیں ہے۔بزنس انڈسٹری پر تو ٹیکس لگا ہی ہے لیکن ساتھ میں ڈومیسٹک بلز پر فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام سے تیسرا خوفناک ٹیکس لگایا گیا ہے،وہ 100 یونٹ پر 1 یزار روپے شرح کے حساب سے الگ سے لگ رہا ہے۔

اب ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ تجزیہ نگار جو اپنےآپ کو نیوٹرل کہلاتے ہیں،بڑے دعوے کرتےہی کہ وہ کسی کے ایجنڈے پر نہیں ہوتے لیکن کیا کریں کہ قدرت کی جانب سے ان سے ایسی حرکت سرزد ہوتی ہے کہ  کوئی بے وقوف بھی جان جاتا ہے کہ یہ تجزیہ نگار نہیں بلکہ ترجمان ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ پیر کو پیش آیا۔سوشل میڈیا ٹوئٹر پر ایک تجزیہ نگار  نے لکھا ہے کہ

دنیا بھر میں پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ کب تک مانگ تانگ کر گزرا کریں گے اور ہر چند سال بعد ڈیفالٹ کا خطرہ۔ اگر کوئی ٹیکس بیس کو وسیع کرنا چاہتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔

اس پر پاکستان کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی نے فوری جواب دیا ہے کہ

مگر ہمیں ٹیکس دینے والوں کی سہولت اور حوصلہ افزائی کے بارے میں بھی بات کرنی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ٹیکس دینے والوں کی شرح میں مزید اضافہ ہو اور اُن کو دیکھتے ہوئے اور بھی لوگ ٹیکس ادا کریں۔

نیدرلینڈ دورےسے شاہین آفریدی باہر،خوش قسمت متبادل کون،شیڈول

یہ ہےوہ بات جو ان تجزیہ نگاروں نے کبھی نہیں کرنی،اگر کریں گے تو تب کریں گے،جب مرضی کی حکومت نہیں ہوگی۔ہم نے گزشتہ 8 سال سے پاکستان میں ہر روز یہی کچھ ہوتا دیکھا ہے۔

اس نام نہاد مبصر کو دیکھنا چاہئے کہ اس وقت بجلی کے بلز،بزنس بلز پر جو کھلم کھلا معاشی دہشت گردی جاری ہے،اس پر کام کرنا چاہئے۔انہیں لکھنا چاہئےتھا کہ حکومت وقت تحقیقات کے بعد اہل لوگوں پر ٹیکس لگائے،ایک پان فروش،ایک چائے فروش پر اس کے گھر میں اضافی بجلی بل،اس کی دکان پر اضافی بل کی مذمت کرنی چاہئے تھی لیکن کیا کریں کہ

وہ نیوٹرل تھے نہ ہیں  اور نہ ہونگے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *