تحریر۔ع ع۔اکتوبر 2024 تھا ۔ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ جاری تھا۔ پاکستان کرکٹ کی ایک سابق شخصیت سے جب اس کے سابق کپتان عمران خان کے بارے میں سوال ہوا تو۔۔۔رکیں،اس سے قبل یہ
عمران خان،،سب کلین بولڈ،وہ ناٹ آئوٹ،دوسری اننگ کا وقت آگیا۔سچ لکھنے کیلئے حوصلہ درکار ہوتا ہے اور کچھ روحانی طاقت بھی۔اس کے بغیر جھوٹ بکتا ہے۔کوئی لکھواتاہے اور کوئی من گھڑت بتاتا ہے۔تھنک ٹینک پکڑے بھی جائیں،باز نہیں آتے،کیوں آئیں،کیونکہ وہ فیک ہوا کرتے ہیں۔ایسے اہی ایک فیک نیوز سامنے آئی،کچھ اس اسے اور کچھ اس کی اور اس کے باپ دادوں کی اصلاح کیلئے،ایک ساتھ یہاں درج ہوگا،۔
یہ 1992 کی بات ہے۔پاکستان کےورلڈ کپ جیتنے کے ہیرو عمران خان اپنے لڑنے والے جذبے کے لیے مشہور ہیں، دنیا بھر میں ان کی تعریف ہوئی۔ وہ ایک دلکش کپتان تھے۔ اپنے جوانوں کو قریب قریب شکست کے حالات میں شاندار واپسی کرنے کی ترغیب دی، خاص طور پر حریف بھارت کے خلاف۔ خوبصورت شکلوں سے مالا مال، اس کے پاس آٹوگراف لینے والی ایک بڑی خاتون بھی تھی کہ آیا وہ کرکٹ میں دلچسپی رکھتی ہیں یا نہیں۔ مشہور شخصیات اور سیاستدان ان کی کمپنی میں دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ ایک غلطی ہوتی اگر وہ اپنے اسپورٹس اسٹارڈم کا استعمال کرتے ہوئے ایک بڑا قومی کردار ادا کرنے کی کوشش نہ کرتا۔
یہاں ایک گھٹیا جملہ استعمال ہوا کہ یہ ایک غلطی ہوتی اگر وہ اپنے اسپورٹس اسٹارڈم کا استعمال کرتے ہوئے ایک بڑا قومی کردار ادا کرنے کی کوشش نہ کرتا۔کیوں؟یہ بھی لکھا جاسکتا تھا کہ یہ ایک غلطی ہوتی،اگر وہ اپنے قد کاٹھ کے ہوتے ہوئے پاکستانی عوام کی خدمت نہ کرتے،انہوں یہ غلطی نہیں کی۔
اسٹرائیک فاسٹ باؤلر کے لیے سیاسی سفر سست رفتار میں شروع ہوا، جو اپنے دنوں میں سب سے زیادہ توجہ پر نہیں تھا، جب اپنی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی قائم کی، جس نے سماجی انصاف کے نظریات کی حمایت کی اور قائم شدہ جماعتوں کو چیلنج کیا۔ یا بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو۔
ملک میں ناکارہ حکمرانی اور مالی لالچ کی سیاست سے شدید عوامی عدم اطمینان کے باوجود، ان کی پارٹی فوری طور پر کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ واضح تھا کہ سیاست میں گول کرنا کرکٹ میچ جیتنے سے بالکل مختلف مقابلہ ہوگا۔ 1997 کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں پی ٹی آئی کوئی بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی اور 2002 کے انتخابات میں صرف خان ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ نہ ہی نواز شریف اور نہ ہی بے نظیر بھٹو خان کو ایک سنجیدہ مخالف سمجھتے تھے، اور انہیں اپنی سیاسی پختگی ثابت کرنے کے لیے ایک طویل سفر طے کرنا تھا۔ یہ سیکھنا تھا کہ طاقتور اشرافیہ اور مقابلہ کرنے والے ادارہ جاتی مفادات کو کیسے منظم کرنا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف ان کی بیان بازی اور اپنے بڑے سیاسی مخالفین کے کردار کی ناکامیوں پر لگاتار حملوں نے آبادی کے ایک حصے کو خوش کیا ہو، لیکن یہ انہیں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی کافی نہیں تھا۔سیاست میں داخل ہونے کے بعد انہیں اگست 2018 میں بالآخر وزیر اعظم بننے میں دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
اپریل 2022 میں، خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جنہیں سازش کے تحت فرضی پی ڈی ایم کی طرف سے ان کے خلاف لائے گئے عدم اعتماد کے ڈرامائی پارلیمانی ووٹ میں ہٹایا گیا، جس میں ملک کے زیادہ تر سجدہ گزار بااثر سیاسی کھلاڑی شامل تھے۔عمرانخان خاموشی سے باہر گئے لیکن پاکستانی عوام کے احتجاج اور اپنی حمایت کے اظہار کے بعدجوابی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
خان کی وزارت عظمیٰ کے تحت پاکستان نے کووڈ-19 کے بحران کو بہتر طریقے سے سنبھالا، اور ان کے فلاحی اقدامات جیسے کہ صحت کارڈ، یونیورسل ہیلتھ کیئر کے لیے ایک فلیگ شپ اسکیم اور غریبوں کے لیے شیلٹر ہوم اسکیم، نے بے پناہ تعریف حاصل کی۔ حکمرانی کا ان کا مجموعی ریکارڈ غیر معمولی تھا۔ درحقیقت، اگر انہیں پارلیمانی ووٹ کے ذریعے نہ ہٹایا جاتا تو اگلے الیکشن میں بھی جیت جاتے۔خان کو اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران دو انتہائی حساس جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلا اگست 2019 میں ہندوستان کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی تھی جس نے جموں اور کشمیر کے خطے کو (پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تقسیم کیا گیا تھا لیکن دونوں نے مکمل طور پر دعوی کیا تھا) کو ہندوستانی آئین کے تحت خود مختاری کی ایک محدود شکل کی اجازت دی تھی۔ اس میں بھی ایک سازش تھی،مگر خان نے پڑوسی کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کرنے اور بالی ووڈ فلموں پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ہی ہندوستان کے ساتھ تعلقات ختم کئے،جوکہ درست تھا لیکن سازشی تھیوری کو قبول نہ تھا۔۔ یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر کچھ مفادات بھارت کے ساتھ تعلقات کے حق میں تھے، لیکن خان نے اپنا پاؤں نیچے رکھا۔ یہ معاملہ تعطل کا شکار ہے حالانکہ خان صاحب 2022 سے اقتدار میں نہیں ہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ کتنا حساس ہے۔خان ہی سچا ہے۔دوسرا چیلنج یہودی ہستی اور کچھ عرب ریاستوں کے درمیان نام نہاد ترامیم معاہدہ تھا جسے ڈونلڈ ٹرمپ حکومت نے جوڑ دیا۔ غیر مصدقہ اطلاعات میں امریکہ نواز خلیجی ریاستوں کی جانب سے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ کی بات کی گئی ہے۔ خان نے مبینہ طور پر اس سمت جانے کو مسترد کر دیا، یہ بھی ان کو قبول نہ تھا۔
اکتوبر 2024 تھا ۔ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ جاری تھا۔ پاکستان کرکٹ کی ایک سابق شخصیت سے جب اس کے سابق کپتان عمران خان کے بارے میں سوال ہوا تو انتہائی دکھی انداز میں ایک جواب ملا کہ اسے وہ رسپانس نہیں ملا جو کہ ملنا چاہیے تھا، لیکن وہ ناٹ اؤٹ ہے اور ناٹ اؤٹ رہے گا، سب اؤٹ اور وہ ناٹ اؤٹ۔
میں ان کی گفتگو سن رہا تھا اور دو عشرے قبل کا وقت یاد کر رہا تھا ۔شاید اس سے بھی زیادہ۔ شاید 2001 تھا ،نہیں 2004 تھا۔ انڈیا کی کرکٹ ٹیم طویل عرصے کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورے پر تھی اور کرکٹ دوستی کے نام سے ملتان سمیت پاکستان کے تین مقامات پر تین ٹیسٹ میچز اور ون ڈے میچز تھے۔ غالبا وہ اپریل 2024 کا مہینہ تھا ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور انڈیا کا میچ تھا اور عمران خان ریڈیو پاکستان کے لیے کمنٹری کر رہے تھے۔ یہاں میری ان سے ایک ملاقات ہوئی اور پھر میرے اس وقت کے اخبار کے آفس میں وہ تشریف لائے ۔عجیب بات تھی ۔ایسی باتیں تھیں جوناقابل یقین تھیں۔ مارشل لا تھا۔ ملک میں جنرل مشرف کی حکومت تھی جو ان کو چلاتے ہیں وہ ان کے سر پہ تھے۔ ہمسایہ ملک میں لگائی آگ جل رہی تھی ۔ایسے میں عمران خان نے ریڈیو پاکستان پر پاکستان بھارت میچ کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کیں جو حکومت وقت کو مطلب پرویز مشرف اینڈ کمپنی کو ناگوار گزریں۔ عمران خان کمنٹری سے آؤٹ تھے اور یہ وہی وقت تھا جب یہ نیوز بریک ہوئی کہ وہ اپنی شادی شدہ لائف سے بھی آؤٹ ۔جمائمہ خان سے طلاق ،مگر اس وقت عمران خان سیاست، اپنی مہم اور دوسری چیزوں پر بڑی ہمت اور یقین کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے ۔میں ٹکٹکی باندھ کے انہیں دیکھ رہا تھا ۔ایک ایسا شخص ہے جو ان حالات میں جب کہ اس کے اپنے گھر میں بھی ایک قسم کی نقب لگ چکی۔ ان کا گھر ٹوٹ چکا اور جس ملک میں وہ رہتے ہیں اس ملک کے لیے وہ کمنٹری نہیں کر پا رہے ،کیا باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا یقین اور میرا شک دونوں اپنی جگہ ٹھیک تھے۔ شاید نہیں نہیں ۔سچ میں۔
پھر کچھ عرصہ گزرا عمران خان 2011 کے بعد پاکستانی سیاست پر نمودار ہوئے اور 2013 کا الیکشن جیت گئے لیکن مقبولیت کے ساتھ قبولیت ضروری ہے جیسا کہ 2024 میں نہیں تھی تو نہیں تھی ۔وہ اپوزیشن لیڈر بھی نہ بن سکے ان کی جماعت کو یہ عہدہ بھی نہ ملا، مگر ان کی ہمت اور کوشش جاری رہی ۔2015 میں جب وہ ڈی چوک احتجاج اور دھرنے پر تھے تو اس دوران بنی گالہ میں ان سے ملاقات کا اتفاق ہوا ۔میری ایک کتاب تھی ۔اس کے لیے ایک ایسی بات میں نے کی جو کہ ٹھیک نہیں تھی اس پر انہوں نے اعتراض کیا ،لیکن ساتھ ہی میں نے اس کی جب وضاحت کی تو انہوں نے اتفاق کیا ،اس لمحہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کسی کی نہیں سنتے، اپنی من مانی کرتے ہیں ،جو کہہ دیتے ہیں وہ کرتے ہیں ۔ٹھیک نہیں تھا۔ میں اس کا ثبوت تھا ۔انہوں نے میری بات سنی ۔مجھے شاباش دی کہ دلیل کے ساتھ بات کی ا۔نہوں نے اپنے اعتراض کو مسترد کیا اور میری بات کو قبول کیا ۔یہ بہت بڑی دلیل تھی اس بات کی کہ وہ سنتے بھی ہیں اور دوسرے لیجنڈزی کرکٹرز کی طرح اپنے وقت کی قیمت وصول نہیں کرتے۔ وہ میری کتاب کیابتدائیے کی تحریر تھی۔ قصہ مختصر ۔
جو ہوا وہ تاریخ ہے ہے ۔تاریخ سچ درج کرتی جا رہی ہے۔ مسح کرنے والے جتنی مرضی کوشش کریں ۔یہ 50 سال قبل کا زمانہ نہیں ہے 70 سال قبل کی ایسی کتاب لکھنے کا وقت بھی نہیں ہے کہ جو ملک کے لوگوں کو ر رٹوائی جائے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ یہ سچ کا زمانہ ہے۔ جھوٹ کا بھی ہے، لیکن سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کے لیے ایک پیمانہ موجود ہے، وہ جو کہا گیا تھا کہ وہ تمہیں ایک ہزار میں ایک ہزار بار غلط ثابت کرے گا۔ درست اور اب وہ وقت آیا جاتا ہے کہ جلد ہی وہ اس محاذ پہ بھی درست قرار پائے گا ،وہ لوگ جنہوں نے اس دوران جو کچھ کیا ان کے لیے دنیا اور اخرت، اگر ان کو اس پر یقین ہے، بہت برا انجام ہے۔