کرک اگین اسپیشل ایڈیٹر نوٹ(عمران عثمانی)
سلمان بٹ اور ٹرک پر لوڈنگ،بھارتی میڈیاکا مذاق،پاکستان سےمختلف آرا،پس منظر سمجھین،دھندا ہے پر گنداہے۔بھارتی میڈیا میں اس وقت پاکستان کرکٹ کے حوالہ سے 2 گرما گرم منفی ہیڈ لائنز چل رہی ہیں۔پہلی یہ کہ پاکستان کے کھلاڑی اور بابر اعظم،ان کا نام خاص کر لیا گیا ہے کہ آسٹریلیا پہنچنے پر اپنا سامان ٹرک پر لوڈ کررہے ہیں۔دوسری ہیڈ لائن یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے مرکزی کردار سلمان بٹ کو نیشنل سلیکشن کمیٹی کا ممبر بنادیا ہے۔دونوں حوالوں سے تذلیل کی کوشش ہے۔ادھر پاکستان میں بھی 2 مختلف آرا ہیں۔سلمان بٹ کے حوالہ سے یہ کہ غلط ہوا۔پی سی بی فیصلہ واپس کرے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے سزا کاٹ لی،ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی پی سی بی کیلئے کام کررہے ہیں۔آسٹریلیا میں کرکٹرز خود ہی یہ سب کیا کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ پی سی بی دیکھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔
کوئی ان دانشوروں سے پوچھے کہ کبھی آسٹریلیا سے بھارت،انگلینڈ تو چھوڑیں،کسی بھی کرکٹ ٹیم کی ٹرک لوڈ کرتے تصاویر دیکھی ہیں۔
بھارت سے منفی ہیڈلائنز ہیں اور پاکستان سے ملی جلی۔
اب منظرنامہ کو سمجھنے کیلئے پس منظر جاننا ضروری ہے۔یہاں پاکستان میں بہت کم لوگ ہیں جو میرٹ پر بات کریں گے،ورنہ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے۔کوئی اسے ماڈل ٹائون تو کوئی اسے ویسٹ لاہور کی سلیکشن کمیٹی بناتا ہے تو اس کا بھی ایک مقصد ہے۔اسی طرح سلمان بٹ کو اخلاقیات کا درس دینے والا بھی مفادات کے پلڑے میں اپنے بھاری بوجھ کے ساتھ موجود ہے۔
چیف سلیکٹرکے3 کنسلٹنٹ آگئے،سلمان بٹ بھی شامل،حفیظ اب استعفیٰ دیں گے
منظرنامہ میں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں،پس منظر پر کوئی بات نہیں کرتا۔جہاں اصل خرابی اور فساد ہے۔ہم پس منظر سمجھتے ہیں۔پاکستان کرکٹ پر اس وقت کون موجود ہے۔کیا وہ قانونی،اخلاقی طور پر درست ہے۔اگر ہوتا بھی تو کیا اس کی تقرری کرکٹ کی سمجھ بوجھ یا کرکٹ مفادات سے جڑی ہے یا کسی شوگر ملز سے ہوتی سیاسی گلی سے۔پہلے سوال کا جواب آپ کے سامنے ہے اور دوسرے سوال کا جواب عشروں سے آپ کے ذہنوں میں نقش ہے۔جب یہ سچ ہے اور جب یہ حقیقت ہےتو ایسے ناعاقبت اندیش لوگوں سے دانش مندانہ فیصلے کیسے ممکن ہوسکیں گے۔چنانچہ سلمان بٹ کی تقرری ہو یا کسی اور کی۔اس پر بولنے سے پہلے ایسے فیصلے کرنے والوں پر بات کریں اور تسلسل کے ساتھ کریں تاکہ آپ کی بات کوئی سنے،پڑھے اور یقین کرے کہ درست کہہ رہا ہے۔رہ گئی بات آسٹریلیا مین پاکستانی کھلاڑیوں کے ٹرک لوڈ کرنے کی،تو پھر وہی بات ہے کہ ہم نے دنیاکو دکھایا اور بتایا ہے کہ رائٹ جاب کیلئے رائٹ پرسن نہیں ہے۔اوپر سے لیکر نیچے تک یہی روایت ہے،توکوئی کیوں آپ کا سامان اٹھائے اور آپ کو اتنی عزت دے،جیسے کسی غیر ملکی مہمان یا سفارتکار کو دی جاتی ہے۔وہ ہمیں کھلونے سجھتے ہیں اور ہماری اوقات جانتے ہیں،اسی حساب سے ہمیں ٹریٹ کرتے ہیں۔اگر کسی نے آج سڈنی مارننگ ہیرالڈ اور دی ایجز نہیں دیکھا تو اس کی سٹوری کے حاصل حصول کا لنک ہیش خدمت ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔
ویلکم ٹو آسٹریلیا،انتشار کا شکار پاکستان کرکٹ ،یہ ان کا کاروبارہے،استقبال ایسے ہوا
وہ لکھتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے اور یہ اس کی کرکٹ۔پی سی بی سے لیکر کپتانی تک ایک کاروبار ہے اور کاروباری صرف کاروبارکرتا ہے اور کچھ نہیں۔یہاں ملک کی کوئی فیلڈ ،ادارہ یا گیم یا انتظامی ادارہ دیکھ لیں اور سوچیں کہ یہاں میرٹ پر لوگ بیٹھے ہیں اور فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں۔6 برس قبل کسی کو سسیلین مافیا ڈکلیئر کرتے ہیں اور کسی کو صادق و امین۔ٹھیک6 برس بعد سسیلین مافیا صادق وا مین بنادیتے ہیں اورصادق امین کو چور اور زانی۔یہ کاروبار نہیں تو اور کیا ہے۔یہ بزنس نہیں تو اور کیا ہے۔یہ دھندا نہیں تو اور کیا ہے۔دھندا ہے،بس دھندا ہے۔گدھا کتابیں لادے جانے کے بعد جناب،آپ یا عزت مآب نہیں بن جاتا،وہ گدھا ہی رہتا ہے اور گدھا ایک ہی کام کیا کرتا ہے۔پس منظر میں گدھا ہوتا ہے اور منطرنامہ میں کتابیں۔دیدہ زیب،جاذب نظر اور کھولیں تو ایسے کہ جیسے بکھرے موتی۔چنانچہ منظرنامہ کو چھوڑیں۔پس منظر کو جانیں اور سوچیں کہ دھنداہے پرکتنا گندا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر وہ عنوان بہت پسند آیا ہے کہ
یہ معمول کے مطابق کاروبار ہے اور بس۔کیسا بحران یا کیسا احساس