| | | | | |

پاک آسٹریلیا سیریز کی سلیکشن،پچز اور پرفارمنس نے نیا کٹا کھول دیا،بڑا ثبوت ساتھ

 

کرک اگین رپورٹ

کرک اگین کا 10 فروری کو لکھا گیا تجزیاتی پوسٹ  مارٹم درست نکلا،ریکارڈ کے لئے لنک پیش خدمت ہے۔

آسٹریلیا کے بائولنگ اٹیک کے سامنے پاکستانی گیند باز بچے،حقائق و ریکارڈز حاضر،پی سی بی کی ایک غلطی

یہ 10 فروری کی بات ہے۔کرک اگین نے اپنے پاک آسٹریلیا ٹیسٹ ریکارڈز وٹیموں کے جائزے کے سلسلہ میں ایک تفصیلی مضمون شائع کیا تھا،اس میں ایک آرٹیکل صرف اس بات پر تھا کہ پاکستان کے اعلان کردہ بائولرز آسٹریلیا کے گیند بازوں کے سامنے بچے ہیں۔مکمل اعدادو شمار دیئے تھے۔ساتھ میں بتایا تھا کہ محمد عباس اور یاسر شاہ کو نکالنے کے بعد اعلان کردہ اسکواڈز کی ٹوٹل وکٹیں 217 بنتی ہیں۔سامنے 1500 ٹیسٹ وکٹ کا تکربہ رکھنے والا اٹیک تھا،جس میں اکیلے نیتھن لائن ہی پاکستان کے تمام گیند بازوں کی مجموعی وکٹوں سے زیادہ 400 سے کہیں اوپر کا تجربہ رکھتے ہیں۔پاک آسٹریلیا سیریز کی سلیکشن،پچز اور پرفارمنس نے نیا کٹا کھول دیا،بڑا ثبوت ساتھ ہے۔

کرک اگین نے لکھا تھا کہ

ی سی بی نے جب محمد عباس اور یاسر شاہ جیسے تجربہ کار بائولرز کو متبادل پلیئرز کی لسٹ میں ڈالا ہے تو اس کے بعد جائزہ نہایت ضروری ہوگیا ہے۔آسٹریلین ٹیم فل سٹرینتھ اور طاقت کے ساتھ پاکستان آرہی ہے۔اس کی ٹیم میں 5 فاسٹ بائولرز اور 3 اسپنرز کے ساتھ 2 وکٹ کیپرز اور 8 بیٹرز وآل رائونڈرز شامل ہیں۔

کینگروز کپتان ہیں،28 سالہ پیٹ کمنز رائٹ آرم فاسٹ بائولر ہیں۔38 ٹیسٹ میچزمیں 185 وکٹوں کا تجربہ رکھتے ہیں،نہایت خطرناک پیسر ہیں ۔آئی سی سی ٹیسٹ پلیئرز رینکنگ میں طویل وقت سے پہلے نمبر پر ہیں۔دوسرے تجربہ کار پیسر مچل سٹارک ہیں۔لیفٹ ہینڈ فاسٹ بائولر66 ٹیسٹ میچز کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔32 سالہ تیز گیند باز کی 274 وکٹیں ہیں۔رائٹ آرم فاسٹ میڈیم بائولر  جوش ہیزل ووڈ 31 سال کی عمر میں بھی اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔56 ٹیسٹ میچز میں 215 وکٹیں بتانے کے لئے بہت کچھ ہیں۔حال ہی میں انجری سے نجات پائی ہے۔مچل نیسر بھی رائٹ ہینڈ میڈیم پیسر ہیں۔اسی طرح  32 سالہ سکاٹ بولینڈ حیران کن فاسٹ بائولر ہیں۔انگلینڈ کے خلاف حال کی ایشز میں ڈیبیو کیا۔3 میچزمیں 18 وکٹیں لے کر سب کو حیران کردیا ہے۔وہ بھی خطرناک ہیں۔آسٹریلیا اپنے اسکواڈ میں 3 اسپنرز لایا ہے۔ان میں   سلو لیفٹ آرم پریکر آشٹن اگر ہیں۔4 میچزمیں 9 وکٹیں ہیں۔34 سالہ رائٹ آرم آف بریکر نیتھن لائن کا ہی ذکر ضروری ہے۔105 ٹیسٹ میچز میں 415 وکٹوں کا مطلب کیا ہوتا ہے،پاکستان میں موجود ماضی کے اسپنرز مشتاق احمد اور ہیڈ کوچ بننے والے ثقلین مشتاق بخوبی جان سکتے ہیں کہ یہ چارٹ کیا پیغام دیتا ہے۔

شعیب اختر کی رمیز راجہ پر گولہ باری،آسٹریلیا سے شکست کا راز کھول ڈالا

اب اس کے مقابلہ میں پاکستانی اعلان کردہ اسکواڈز کا جائزہ لیتے ہیں۔28 سالہ رائٹ ہینڈ فہیم اشرف آل رائونڈر کے طور پر ہوتے ہیں۔13 ٹیسٹ میچزمیں 22 وکٹیں ہیں۔635 اسکور کرسکے ہیں۔14 ٹی 20 انٹر نیشنل،16 فرسٹ کلاس وکٹ کا محض تجربہ رکھنے والے حارث رئوف اس ٹیسٹ اسکواڈ میں ڈالے گئے ہیں۔وہ ٹیسٹ کیپ کے امیدوار ہیں۔27 اسلہ رائٹ آرم میڈیم پیسر حسن کی17 میچز میں 72 وکٹ کی بنیاد پر ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔پاکستانی پیس اٹیک کا نمبر ون نام شاہین شاہ آفریدی ہے۔21 سال سے کچھ اوپر عمر کے بائیں ہاتھ کے پیسر21ٹیسٹ میچزمیں 86 وکٹ کا تجربہ رکھتے ہیں۔شاندار  پرفارمنس ہے لیکن کم عمری اور ناتجربہ کاری آسٹریلیا جیسی ٹیم کے خلاف مشکل کا سبب بن سکتی ہے۔28 سالہ دائیں ہاتھ کے آف بریکر ساجد خان کے پاس 4 میچز میں 18 وکٹ کا تجربہ ہے۔اسی طرح36 ویں سال میں داخل سلو لیفٹ آرم اسپنر نعمان علی7 میچز میں 19 وکٹیں اپنے پاس رکھتے ہیں۔ پاکستان کے ٹاپ 5 بائولرز حسن علی،شاہین آفریدی،فہیم اشرف،حارث رئوف ،نعمان علی اور ساجد خان کے پاس مجموعی طور پر  صرف 217 ٹیسٹ وکٹ کا تجربہ ہے۔اس کے مقابلہ میں ذڑرا ایک نظر دوبارہ دوڑا لیں کہ خالی  ہیزل ووڈ کی 215 وکٹیں ہیں۔مچل سٹارک 274 پر ہیں،نیتھن لائن کی 415 وکٹوں یادیگر کا کیا ذکر ہو۔

محمد عباس 25 میچز میں 90 اور یاسر شاہ  پاکستانی اسکواڈ میں شامل تمام بائولرز سے زیادہ 235 وکٹ کا تجربہ رکھتے ہیں۔دونوں کو متبادل پلیئرز میں شامل کرکے سائیڈ لائن کیا گیا ہے۔

پاکستان لاہور ٹیسٹ ہارگیا،آسٹریلیا کی تاریخی جیت،کرک اگین پیش گوئی سچ،ٹیبل پوزیشن

کرک اگین نے دور بین اٹھائی تھی یا پاکستان کےا سکواڈز سے دشمنی تھی یا کوئی اسے غیب کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بائولنگ اٹیک ہمارے بائولنگ  لائن اپ کے پرخچے اڑادے گا۔پاکستان اسی باب میں ہارا ہے۔یہ تو کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کی دوسری اننگ کی بیٹنگ چل گئی ورنہ پہلی اننگ کی بیٹنگ نے مشکلات کھڑی کردی تھیں۔اسی طرح لاہور ٹیسٹ بھی اسی بائولنگ فرق سے ہارے ہیں۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے اس سیریز سے قبل 21 سالہ شاہین آفریدی کو وہ درجہ اس وقت دیا ہوا ہے جو وسیم اکرم کو کیریئر کے 7 سال بعد ملا تھا۔اب ان کی سپورٹ میں کون ہیں۔نسیم شاہ ،حسن علی اور فہیم اشرف ۔جب تک شاہین کو ان کے پائے کای جوڑی دار نہیں ملے گا،اس وقت تک پاکستان پیٹ کمنز جیسا رزلٹ نہیں نکال سکے گا کیونکہ ان کے پاس مچل سٹارک تھے۔سٹارک کا بیک اپ اور نیتھن لائن جیسے اسپنرز کی مدد نے پیٹ کمنز کو شیر بنایا۔

یہاں کون ہے۔2۔2 یا 4،4 ٹیسٹ کھیلنے والے نعمان اور ساجد،یا میڈیم پیسر بلکہ پارٹ ٹائمر حسن اور فہیم،نسیم شاہ کی تو بات ہی کیا کریں جو سیکھنے کی بجائے خود کو عمران خان سمجھنے لگے ہیں۔

اس کے براہ راست ذمہ دار پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ ہیں۔جو مداخلت کرکے ورلڈ ٹی 20 کپ اسکواڈ  کو تبدیل کرواسکتے ہیں تو اس سیریز کے لئے بہترین پیس  یا اسپنر اٹیک کیوں نہیں۔سابق کوچ مکی آرتھر،سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق کو لیگ اسپنر یاسر شاہ کی اہمیت کا علم ہورہا ہے،وہ ان کو یاد کررہے ہیں لیکن چیف سلیکٹر محمد وسیم اور چیئرمین رمیز راجہ کے ساتھ کپتان بابر اعظم کو اندازا نہ ہوسکا۔دوسری بات یہ ہے کہ اسی وجہ سے ہی سلو بلکہ ڈیڈ پچز بنائی گئیں۔اسپن پچز بھی اس لئے نہیں بنائی گئی ہیں کہ اپنے اسپنرز پر اعتماد نہیں تھا۔

پھر ذکر ہو کہ کرک اگین  اگر سیریز کے آغاز سے 25 روز قبل یہ سب لکھ سکتا تھا،نتیجہ نکال سکتا تھا تو ان تھنک ٹینک کو کیوں نہیں ہوا۔یا پھر سادہ سی بات لگتی ہے کہ آسٹریلیا سے یہ سیریز واقعی میں خیر سگالی کے جذبے کے ساتھ کھیلی جارہی ہے۔

اب اس سیریز کے نتائج دیکھ لیں کہ پاکستان بیٹنگ میں بھی پہلی پوزیشن نہ لے سکا۔بائولنگ میں بھی اس کا تیسرا نمبر آیا۔اندازا کریں کہ 24 برس بعد پہلی بار پاکستان آنے والے آسٹریلین کھلاڑیوں میں عثمان خواجہ 496 اسکور اور پیٹ کمنز و نیتھن لائن 12،12 وکٹ کے ساتھ پہلی پوزیشن لے گئے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *