تحریر۔عمران عثمانی ۔چیمپئنز ٹرافی،کیا کھویا،کیا پایا،360 ڈگری کا یوٹرن ناکامی اور تاریخی میزبانی کا اختتام سبکی،کرکٹ بریکنگ نیوز یہ ہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 ماضی بن چکی۔بھارت تیسری بار چیمپئن بن گیا،یہ تاریخ میں درج ہوگیا۔میزبان پاکستان ایونٹ کے آغاز سے کئی ماہ قبل سے فائنل کے روز تک میدان سے باہر شدید دبائو میں رہا اور عجب قسم کی نیوز کا حصہ بنا رہا۔میدان میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی خراب کارکردگی نے میزبان ملک کے فائدے اور مزے کو ختم اور کرکرا کردیا۔
ایک بحث یہ رہی کہ بھارت کو ایک وینیو ملا،اس کی مرضی کی کنڈیشنز،پچز اور میدان سجایا گیا،اس لئے وہ کامیاب ہوا۔اس پر آسٹریلیا،انگلینڈ سے بھی نمایاں آوازیں بلند ہوئی ہیں۔اس کے باوجود بھارت کی تازہ ترین کارکردگی پرکوئی بحث نہیں ہے۔پروفیشنل ٹیم ہے اور اس نے پروفیشنل انداز میں ایونٹ جیت لیا۔دنیا کی ٹاپ 8 ون ڈے ٹیمیں میدان میں تھیں۔گروپ اے میں پاکستان،نیوزی لینڈ،بھارت اور بنگلہ دیش تھے۔گروپ بی میں جنوبی افریقا،افغانستان،آسٹریلیا اور انگلینڈ تھے۔ان میں سے 7 ٹیموں نے پاکستان میں میچز کھیلے اور 3 سنٹرز لاہور،راولپنڈی اور کراچی میں ایکشن میں رہے۔
یہاں 2 سوالات ہیں ۔پہلا یہ کہ پاکستان نے 29 برس بعد آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کی،کیا کھویا۔کیا پایا۔دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ایونٹ کے آغاز کے 5 ویں روز اپنے دوسرے میچ کے بعد بد ترین پرفارمنس کے ساتھ کیوں باہر ہوئی۔ٹھیک ہے کہ اسے بھارت کے خلاف میچ کیلئے دبئی جانا پڑا لیکن اس سے قبل اپنے ہوم میدان کراچی میں نیوزی لینڈ سے شکست کا کیا جواز ہوگا۔حالانکہ پاکستان اس سے قبل نیوزی لینڈ سے سہہ ملکی کپ کا گروپ میچ ہارا۔پھر فائنل بھی ہارا۔پھر چیمپئنز ٹرافی کا پہلا میچ بھی اسی نیوزی لینڈ سے ہارگیا،اس کی کیا وجہ بنی،ہم پہلے اسے دیکھتے ہیں۔
آئی سی سی ایونٹ کوئی بھی ہو، اس کی تیاری موثر طریقے سے کی جاتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی تیاری کیا تھی۔ دیکھیں گزشتہ چند ماہ میں پاکستان کرکٹ ٹیم ون ڈے کرکٹ میں ایک بہترین سائیڈ بن کر سامنے آئی تھی ۔جب اس نے آسٹریلیا کو قریب تین عشروں بعد اس کے ملک میں جا کے ون ڈے سیریزہرائی ۔جنوبی افریقہ میں جا کے ون ڈے سیریز جیتی اور زمبابوے میں جیتی۔ اس کے بعد اس کی جو محدود سرگرمی تھی، وہ تین ملکی کپ اور چیمپیئنز ٹرافی تھی، لیکن کیا وجہ بنی کہ پاکستان کی ٹیم سخت ممالک میں جیتتی دکھائی دی اور اپنے ملک میں دونوں ایونٹس میں بدترین طریقے سے ہار گئی۔
سمجھنے کے لیے دو چیزیں سامنے رکھنی ہوں گی۔ پہلی بات یہ کہ چیمپینز ٹرافی اور سہہ ملکی کب سے پہلے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کیا کر رہی تھی اور دوسرا دونوں ایونٹس کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کیسے تھی اور معیار کیا تھا ،تو ہم آپ کو یاد کرواتے چلیں کہ جنوری 2025 میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی اور پاکستان کے ٹیسٹ کھلاڑیوں نےملتان میں اوپر تلے دو میچز ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے۔ یہ میچ ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں تھے اور آخری میچ 25 جنوری سے شروع ہوا لیکن پاکستان تیسرے روز یہ میچ ہار گیا اور یہ سیریز ایک ایک سے ڈرا رہی۔پاکستان قریب 35 برس بعد اپنے ملک میں ویسٹ انڈیز سے ٹیسٹ ہارگیا۔کیا یہ ایک مناسب وقت تھا؟ ایک بڑے ون ڈے ایونٹ سے پہلے پاکستان کرکٹ ٹیم ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی اور اگلا پہلو یہ کہ اس ٹیسٹ میچ میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے تھنک ٹینک کی پالیسی کیا تھی .سلو پچز اور سپن ٹریک اور اس کا دفاع کیسا تھا۔ ملتان میں دونوں میچز کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کی مینجمنٹ جس میں عاقب جاوید جو کہ دو عہدے رکھتے ہیں، وہ بھی سامنے آئے۔ کپتان بھی سامنے آئے اور کئی قومی کرکٹرز ، سب سے جب بھی جاری سپن پچز اور اس منصوبے کا سوال ہوتا تھا تو ان میں سے اکثر چڑ کر یہ کہتے تھے کہ آپ کو مسئلہ کیا ہے۔ فاسٹ بولرزمیچ جتوائیں تو ٹھیک ہے ۔سپنرز جتوائیں تو آپ کو اعتراض ہے ۔بے شک ہمارے بیٹسمینوں کو سپن پچز پرکھیلنے میں مشکل پیش آرہی ہے لیکن اب پاکستان میں یہی ہوگا ۔ہم میزبان ہیں ، جیسی مرضی پچز بنائیں اور ہم پورے سینٹرز میں ملتان جیسی پچز بنائیں گے۔
مطلب یہ واضح پالیسی تھی کہ پاکستان اپنے ہوم گراؤنڈ میں اب اسپین ٹرک پر چلے گا تو یہ پالیسی تھی جس کا دفاع کرتے نظر آئے لیکن ملتان ٹیسٹ ختم ہونے کے ایک ہفتے کے اندر جب پاکستان کےسکواڈ کا اعلان ہو گیا تو کرکٹ فینز کے ساتھ ساتھ ہم لوگ بھی برے طریقے سے سٹپٹا گئے کہ وہ ٹیم منیجمنٹ اور وہ ہیڈ کوچ اور سلیکٹر جو کہ بڑھ چڑھ کر ان سپن پچز اور سپن ٹرکس کا دفاع کر رہا تھا اس نے چیمپئنز ٹرافی میں سپنرز اور سپن کی ضرورت کو نظر انداز کیا، صرف ایک ریگولر سپنر ابرار احمد کو رکھا گیا اور وا شگاف اعلان کیا کہ ہم تین پیسرز شاہین شاہ آفریدی ،حارث رئوف اور نسیم شاہ کے ساتھ آگے جا رہے ہیں۔ اب یہاں سوال بنتا ہے کہ پاکستان آئی سی سی چیمئنزٹرافی کا میزبان تھا، بھلے پچز اور میدان کا کنٹرول آئی سی سی سنبھال لیتی ہے لیکن میزبان ملک کا بھی ایک بہت بڑا اس میں ہاتھ ہوتا ہے اور اس کی کنڈیشنز اور اس کی چیزیں چل رہی ہوتی ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ جو کہ اپنے ان تھنک ٹینک کے ذریعے میڈیا کے سامنے بڑھ چڑھ کر سپن ٹریک ،سپن پجز اور سپنرز کی تعریف کرتے نہیں تھکتا تھا اور اس کا دفاع کرتے نہیں تھکتا تھا چند ہفتوں بعد ہونے والے ایونٹس تین ملکی کپ اور چیمپیئنز ٹرافی کے لیے اپنی ٹیم ویسی کیوں نہیں بنائی تو واضح ہوا کہ یہاں پر کھلا تضاد تھا۔ ٹیم سلیکشن ،سلیکٹرز اور پچز کے حوالے سے جو پالیسی رکھی گئی تھی، اسے آگے نہیں بڑھایا گیا ،تو یہ جو یوٹرن ہوا۔پاکستان کرکٹ کا پورا چلتا سیٹ اپ برباد ہوا ،پھر جب آپ نے یک دم ٹیم تبدیل کی تو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ اور زمبابوے میں دورہ کرنے والے کئی نوجوان کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا گیا اور فہیم اشرف جیسے ہیروں کو ٹیم میں ڈالا گیا، جس پر بہت تنقید ہوئی۔ پھر فخر زمان جیسے اکلوتے اوپنرکو رکھا گیا اور بابر اعظم کو کہا گیا کہ وہ نمبر تین پوزیشن چھوڑ کر اوپننگ کریں ۔یہ ایک غلط فیصلہ تھا، تو دو باتیں ہوئیں۔ ایک ٹیم سلیکشن غلط ہوئی اور دوسرا جو تھنک ٹینک کی اپنی پالیسی تھی یہ اس کے خلاف گئے ،جب یہ ہر ایک کو نظر آرہا تھا تو حاشیہ نشین اس موقع پر یہ سننا ہی نہیں چاہتے تھے،بات نہیں کرنا چاہتے تھے ،جب بھی کرکٹ کے نیوٹرل لوگ صاف دیکھ رہے تھے کہ بھارت نے کیا سکواڈ منتخب کیا ہے اور اس نے کس ٹائپ کی پالیسی اختیار کی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس کی سمجھ نہیں آئی ۔پاکستان کے لیے نیوزی لینڈ نے اپنی ٹیم میں چار اچھے سپنرز ڈال دیے ۔آسٹریلیا جیسی ٹیم نے تین سپنرز ڈالے۔جنوبی افریقہ بھی تین سے چار سپنرز کے ساتھ سامنے آیا ۔افغانستان کے پاس سپن اٹیک اچھا خاصا ہے ۔انگلینڈ نے بھی کوشش کی کہ تین سپنرز وہ لے کے آئے ،لیکن ایک پاکستان کی کرکٹ ٹیم تھی جو کہ پہلا میچ ہارنے کے بعد بھی یہی کہتی پائی گئی کہ ہم نے تو تین فاسٹ باؤلرزکے ساتھ جانا ہے، حتیٰ کہ دبئی میں بھی جب گئے وہاں بھی انہوں نے یہی پالیسی رکھی۔ نتیجہ سامنے ہے۔
پاکستان کے خلاف سیریز،نیوزی لینڈ کپتان تبدیل،بڑے کھلاڑی آئی پی ایل کی خاطر باہر
یہ واضح ہوا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان کے سلیکٹرز اور پاکستان کی ٹیم مینجمنٹ ڈبل مائنڈڈ تھی اور ان کی پالیسی صبح کو کیا تھی اور شام کو کیا تھی۔ 360 ڈگری کے اس یوٹرن نے پاکستان کرکٹ کی جڑوں کو جھٹکا دیا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس بری رہی۔ تین ملکی کپ میں اسے نیوزی لینڈ نے دو مرتبہ ہرایا۔ ایک مرتبہ گروپ میچ میں اور ایک مرتبہ فائنل میں، جنوبی افریقہ سے بہرحال وہ ایک ریکارڈ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے جیتے، پھر جب چیمپیئنز ٹرافی کا پہلا میچ ہم نیوزی لینڈ سے ہارے تو اس کے بعد جیسے پاؤں اکھڑ گئے۔ دبئی میں اس کے ٹھیک چار دن بعد دوسرا میچ جب ہارے تو ایونٹ سے باہر ہو گئے۔ بنگلہ دیش والا میچ ویسے ہی غیر اہم ہو گیا تھا۔ بارش نے اس پر کام تمام کر دیا۔
دوسرا پہلو پاکستان کی طرف سے چیمپیئنز ٹرافی کی معقول تیاری نہ کرنا تھا۔ آپ چیمپئن آف دی چیمپیئنز ٹرافی بھارتی کرکٹ ٹیم کو دیکھیں۔ وہ آسٹریلیا کے دورے سے ناکام واپس آئے ۔پورے ملک میں اور میڈیا میں شور تھا کہ روہت شرما کا مستقبل نہیں ۔کپتان تبدیل کیا جائے ۔ویرات کوہلی کی کوئی پرفارمنس نہیں ،پھر ان کا مین فاسٹ بولر جسپریت بمراہ دستیاب نہیں تھا، لیکن انہوں نے فوکس کیا۔ اپنی ٹیم سلیکشن، کنڈیشن کو سامنے رکھتے ہوئے اور دوسرا جو شیڈیول رکھا تھا، چیمپیئنز ٹرافی سے قبل۔ انگلینڈ کے خلاف ٹی 20اور ون ڈے سیریز کے 8 میچز انہوں نے رکھے اور اپنے اے اور بی اور سی کیٹگریز کے کھلاڑیوں کو باری باری موقع دیا اور 8 میچز کسی بھی بڑے ایونٹ سے قبل کم نہیں ہوتے تو کہنے کو تو پاکستان نےاپنے ملک میں تین ملکی کپ کو سٹیج کر لیا تھا لیکن حقیقت میں اس میں اس کے صرف تین ہی میچ تھے اور چوتھا میچ چیمئنز ٹرافی کا کھیلنا پڑا۔ اس سے پہلے پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ کھیلنے میں مصروف تھی اور اس کے ون ڈے کھلاڑی اپنی اپنی سرگرمیوں میں تھے ،کوئی بنگلہ دیش میں لیگ کھیل رہا تھا اور کوئی کیا کر رہا تھا ،تو ثابت ہوا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا شیڈول ٹیم کی تیاریوں کے حوالے سے غلط تھا اور پاکستان کرکٹ سلیکٹرز کی ٹیم سلیکشن ناقص تھی۔ پھر جو کچھ اس کے بعد دورہ نیوزی لینڈ کے لیے فیصلے کیے گئے وہ اور عجیب و غریب تھے کہ ٹیم ون ڈے میں ناکام ہوئی اور اوپر سے ٹی ٹونٹی کپتان اور اس کے کھلاڑیوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ یہ تو تھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ٹیم سلیکشن اور اس کی ناکامی کی وجوہات پر ایک مفصل بحث۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ بحیثیت میزبان پاکستان نے چیمپئنزٹرافی کی میزبانی کی اور 29 سال بعد کسی بھی آئی سی سی ایونٹ کو اپنے ملک میں کروایا ۔اس سے کیا پایا کیا کھویا ،تو دیکھا جائے پاکستان نے بظاہر ٹورنامنٹ کا کامیاب انعقاد کر لیا۔ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا ۔دنیا کو پیغام چلا گیا پاکستان کرکٹ کے لیے محفوظ ملک ہے ۔یہ تو ہو گیا لیکن اس دوران جو کچھ پاکستان کے ساتھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا ۔ایونٹ کے آغاز میں براڈ کاسٹنگ کے دوران چیمپیئنز ٹرافی لوگو سے پاکستان کا نام ہٹا دیا گیا اور یہ بھارت کا میچ تھا اور پورا دن اس طرح یہ چلتا رہا ۔پاکستان میں شور ہوا ۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو شکایت کی ۔آئی سی سی نے اسے ٹیکنیکی غلطی کہہ کر اس لوگ کو بحال کر دیا۔ پھر بھارت کا قومی ترانہ پاکستان میں ہونے والے انگلینڈ کے میچ میں چلا دیا گیا۔ اس پر جب شکایت ہوئی، اسے بھی ایک ٹیکنیکلی غلطی قرار دے کر اس کو بھی ٹھیک کیا گیا ،تو پاکستان کو ایونٹ کے آغاز میں دو بڑے جھٹکے دیے گئے اور بڑا جھٹکا پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایونٹ سے باہر ہو کے کر دیا اور جب ایونٹ کا اختتام ہوا تو دبئی میں انعامی تقریب میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے 2 عہدیدار،ان میں سے ایک ٹورنامنٹ ڈائریکٹر سٹیڈیم میں موجود تھے۔ آئی سی سی نے انہیں سٹیج پر نہ بلاکرکیا پیگام دیا۔ اس سے بڑی سبکی کیا ہوتی۔ پاکستان کے لیے یہ ایک خوشی کی بات نہیں تھی۔ اب اس پر آئی سی سی سے شکایت کی جا رہی ہے تو سابقہ دو شکایات کی طرح اس کا بھی کوئی لالی پوپ پکڑا دیا جائے گا ۔یہ کیوں ہوا۔ یہ اس لیے ہوا کہ انٹرنیشنل کرکٹ پر بھارت کی چلتی ہے تو ایسے میں پاکستان میں پورا ایونٹ نہیں ہونے دیا گیا اور ایونٹ کے آغاز سے دو مہینے پہلے تک تو یہ کہا جا رہا تھا کہ شاید پورا ایونٹ ملک سے باہر ہو جائے۔ پھر سب نے دیکھا کہ پاکستان کو کس طرح مجبور کیا گیا پاکستان ایک لحاظ سے سرنڈر ہوا ۔بھارت نے اپنی من مانی کی۔ وہ نہیں آیا۔ آئی سی سی ایسے ہو گیا، جیسے بی سی سی آئی کا ذیلی ادارہ ہو تو شروع سے یہ پرابلم چلی۔ اس کے بعد ٹورنامنٹ کے آغاز میں دو جھٹکے ہوئے۔ پھر پاکستان کرکٹ ٹیم نے تیسرا جھٹکا دیا اور ٹورنامنٹ کےاختتام پر پاکستان کو بتا دیا گیا کہ اس کے کیا حالات ہیں۔
پی سی پی چیئرمین محسن نقوی اور ان کی ٹیم نے سٹیڈیمز تیار کیے۔ تینوں مقامات لاہور کراچی اور راولپنڈی کی اپ گریڈیشن کی ۔ داد سمیٹی لیکن اس دوران لاہور میں ہونے والی بارش اور اسٹیڈیم کی خرابی نے بھی سوالات کھڑے کیے، بہرحال پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے عہدہ دار اس لحاظ سے مبارکباد کے مستحق ہیں وہ ٹورنامنٹ کروانے میں کامیاب ہو گئے لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ ہم پاکستان کے لیے وہ عزت جس کا وہ مستحق تھا، اسے حاصل کرنے میں کامیاب رہے یا نہیں۔ ساری صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ ایسے میں انٹرنیشنل میڈیا جیسے بی بی سی اور دوسرے اداروں نے سوالات اٹھائے کہ بھارت کی کھلی حمایت ہے اور کئی غیر ملکی کھلاڑی آف دی ریکارڈ گفتگو میں اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں، ماننتےبھی ہیں لیکن کندھے اچکا کر آگے چلتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح کئی ممالک بے بس ہیں۔ پاکستان کو ایونٹ کی میزبانی واپس لینے کی دھمکی دے کر بھارت نے اپنے ساتھی ممالک جو کہ اس کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چاہے وہ بگ تھری ہوں یا کمزور انہوں نے بھی پاکستان کو بلیک میل کیا تو اس سارے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے کھویا کافی کچھ ہے۔ پایا کچھ زیادہ نہیں۔ اوپر سے بھارت چیمپئن بھی بن گیا۔ پاکستان رہ گیا ۔
چیمپئنز ٹرافی تقریب سے سازش کے تحت پی سی بی باہر نکالا گیا،آئی سی سی سے آفیشلی وضاحت طلب
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے زیر اہتمام ہونے والے اس ایونٹ کے شیڈول کے حوالے سے بھی سخت سوالات ہوئے کہ پاکستان کا پہلا میچ بنگلہ دیش سے ہونا چاہیے تھا اور دوسرا میچ اگر انڈیا سے تھا تو ہوتا، نیوزی لینڈ کے خلاف آخری میچ ہوتا، کم سے کم پاکستان بنگلہ دیش جیسے حریف سے جیت کر آگے آتا اور ٹورنامنٹ میں مزہ رہتا، تو شیڈیول بھی پاکستان کرکٹ بورڈ اپنی مرضی کا نہیں بنا سکا تو ایسے وقت جب کہ میزبان ملک کو شیڈول ،مقامات کے حوالے سے ایک ایڈوانٹیج ہوتا ۔ پاکستان حاصل کرنے میں ناکام رہا ،بھارت کے خلاف میچ لاہور میں شروع میں رکھا گیا ،شروع سے نظر آرہا تھا کہ بھارت نہیں آئے گاتو پھر جب فائنل شیڈول ہوا تو لاہور میں میچ رکھنا چاہیے تھا ،جو کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نہیں رکھ سکا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھی ٹیم کو مایوس کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی قوم کو مایوس کیا ۔صورتحال زیادہ اچھی نہیں رہی۔ اس کا اوور آل ریویو یہ ہے کہ بھارت کامیاب ہو گیا۔ آئی سی سی کی اعلان کردہ فائنل چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کا کوئی کھلاڑی شامل نہیں ہو سکا اور ہو نا بھی نہیں چاہیے تھا ،جو ٹیم شروع میں ہاری، اس کے کھلاڑی کیوں آئیں گے ۔نیوزی لینڈ اور بھارت کے کھلاڑیوں کا غلبہ رہا اور افغانستان کی کھلاڑیوں کی بھی اس میں شرکت رہی۔ انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے حالات خراب رہے ۔ایونٹ سے پرے طریقے سے باہر ہوئے ۔جنوبی افریقا نےسیمی فائنل کھیلا اسے خوامخواہ دبئی جانا جانا پڑا ۔آسٹریلیا کو بھی دبئی ایک دفعہ بھاگنا پڑا لیکن پھر وہ دبئی میں بھارت سے ہارے۔ فائنل میں بھارت نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ٹرافی اپنے نام سجا لی۔ راچن روندرا ٹورنامنٹ 263 رنز اور 3 وکٹ کے ساتھ پلیئر آف دی ایونٹ رہے۔
آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی ماضی بنی ۔بھارت کی جیت تاریخ کا حصہ بنی ۔بطور میزبان پاکستان کرکٹ بورڈ کہاں ہے۔ میں اور آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس کا کیا حاصل حصول ہوگا اور کیا اس سے ملے گا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کی اگلی مصروفیت نیوزی لینڈ کے خلاف ہے ۔لاہور میں کیمپ ختم ہو گیا ہے، ٹیم نے روانہ ہونا ہے۔ 16 مارچ سے وہاںٹی 20 سیریز ہے۔ نیوزی لینڈ نے حال ہی میں بڑے ایونٹ کا فائنل کھیلا ہے۔ پاکستان کی ٹیم نیوزی لینڈ میں اگر بہتر پرفارم کر تی ہےتو کچھ اچھے نتائج ہونگے۔ آئی سی سی کے میگا ایونٹ کی ناکامی سالہا سال اس کا پیچھا کرے گی اور دیکھا جائے گا کہ ون ڈے کے اس ایونٹ میں ناکامی کے بعد دو سال بعد ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ کے لیے کیا لائن آف ایکشن ہوتی ہے محمد رضوان کی کپتانی پر سوالات ہوئے ہیں سابق کرکٹرز نے خاص کر ٹیم سلیکشن پر کڑی تنقید کی اور ان نئے فیصلوں کو بھی زیادہ نہیں سراہا ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ کی کرکٹ ممالک کے سامنے نہیں چلتی۔ آئی سی سی کے سامنے تو بالکل نہیں چلتی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نہیں چل رہی، تو ایسے میں کوئی بھی جلد بازی کا اقدام فائدہ مند نہیں ہوگا۔ دیر پا پلانز کرنے پڑیں گے۔ تبھی جا کے کہیں پاکستان کرکٹ ٹیم جیت کے راستے پر جا سکتی ہے ،نہیں تو کھونا ہی کھونا آگے بھی لکھا جائے گا۔اس سے پہلے اہم بات کہ بڑے عہدوں پر سیدھے راستے سے میرٹ پر آنے والے ہی پاکستان کرکٹ کی درست سمت کا تعین کرسکتے ہیں۔شارٹ طریقون کا انجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے اوروہ ہم گزشتہ کئی ماہ سے دیکھ رہے ہیں۔