| | | | |

ملتان:کرکٹ میچ ہے،آزادی مارچ نہیں

عمران عثمانی

ملتان کرکٹ اسٹیڈیم سے

یہ 6 جون کی ایک گرم دوپہر تھی۔ملتان ہو،جون کا ماہ ہو تو ایسا لکھنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ جون میں ملتان میں گرمی ہی ہونی ہے لیکن اس کے باوجود اسے ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔جس وقت سورج عین سر کے اوپر تھا،قریب آدھا شہر بند کردیا گیا تھا۔جگہ جگہ ناکے،سکیورٹی گاڑیاں اور چوراہوں پر موجود اہلکاروں کی شہریوں کے ساتھ تکرار کچھ عجب منظر پیش کررہی تھی۔ایسے میں میں اپنے ایک دیرینہ ساتھی کے ساتھ میڈیا کوریج کے لئے ملتان کرکٹ اسٹیڈیم کی جانب رواں دواں تھا۔آنے والے واقعات نے مجھے کافی دیر کے لئے کئی سال پیچھے دھکیل دیا۔مجھے بہت کچھ یاد آیا،آج کا حال دیکھا تو دل کٹ سا گیا۔

ملتان کرکٹ اسٹیڈیم،ایک روزہ ریکارڈز،گرمی اور آم کے موسم میں پہلی بار میچز

یہ جون 2001 کی بات ہے۔انگلینڈ میں نیٹ ویسٹ ٹرافی تھی۔3 ممالک پاکستان،انگلینڈ اور آسٹریلیا شریک تھے،اسی ایونٹ کے ایک میچ کی کوریج کے لئے مجھے کارڈف جانا تھا۔پاکستان اور آسٹریلیا مدمقابل تھے۔اس ٹور میں پی سی بی کی جانب سے مناسب کمیونیکیشن نہ ہونے کے باعث انگلینڈ کرکٹ بورڈ مجھ سمیت پاکستان سے آئے کچھ صحافیوں کے ایکریڈیشن کارڈ تیار نہیں کرسکا تھا۔ابتدائی میچ کے کارڈ جو کہ پاس نما تھے،ہمیں لارڈز سے مل گئے تھے اور پہلا میچ اس روز برمنگھم میں تھا۔ہمیں کہا گیا تھا کہ اگلے تمام میچز کے کارڈ کارڈف سے مل جائیں گے ۔

کارڈف کے لئے اس روز میں اکیلا گیا تھا،مین گیٹ کے قریب موجود ایک آفس کی آدھی کھوپڑی جتنی ونڈو سے میں نے ای سی بی اہلکار سے بات کی،تعارف کروایا،ای سی بی کی میرے لئے موجود نصیحت کہ کارڈ وہاں سے ملے گا،بتایا تو اس نے فوری طور پر نفی میں سرہلادیا،میں نے اصرار کیا تو مجھے مختصر جواب ملا کہ سوری مسٹر عثمانی۔میں ہکابکا رہ گیا تھا۔میرے پاس تکرار کا کوئی جواز نہیں تھا۔ایسے میں میں وقت گزاری کے لئے گرائونڈ کی ایک جانب چلنا شروع ہوگیا۔کارڈف اس وقت ایک سادہ سا گرائونڈ تھا۔کوئی بڑی چار دیواری نہیں تھی،کہیں کہیں تو لکڑی کے کیبن لگے تھے،غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ ضروری یا ہنگامی بنیادوں پر میڈیا یا کسی اور مقصد کے لئے بکس بنائے گئے ہیں۔ایسے ہی ایک باکس کے باہر براڈ کاسٹر کی گاڑی اور سامان دیکھا تو دل میں خیال آیا کہ  شاید کوئی میڈیا سے وابستہ فرد موجود ہو۔ایسے ہی بے خیالی میں نے اس باکس کے اوپر کی جانب دیکھا تو اس وقت کمنٹری کرنے والے پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین رمیز راجہ ٹیک لگائے دکھائی دیئے،ان کے بال اور چہرہ ایک سائیڈ سے دکھائی دے رہا تھا۔میں نے انہیں آواز دی،انہوں نے جیسے ہی گھوم کر نیچے دیکھا تو زور سے بولے

ملتان کرکٹ اسٹیڈیم،قومی ٹیم کی پریکٹس یا جبر

حافظ صاحب،آپ یہاں کیا کررہے؟رمیز راجہ سے یاد اللہ ہوئے کچھ وقت ہی گزرا تھا،انہوں نے یاد رکھا تھا،یہ میرے لئے بڑی بات تھی،میں نے بھی اونچی آواز میں انہیں سارا مسئلہ بتایا تو انہوں نے مجھے کہا کہ یہیں رکو،میں کسی کوبھیجتا ہوں۔پھر ایک ای سی بی اہلکار نیچے آئے،اسی راستہ سے اوپر لے گئے،اگلے چند منٹ میں میرے پاس پورے ایونٹ کا ایکریڈیشن کارڈ موجود تھا۔اس میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں،جو اپنی جگہ دلچسپ اور سبق آموز ہیں،وہ پھر کبھی سہی۔اصل بات یہ تھی کہ  یہ سب کچھ چند لمحات میں حل ہوگیا تھا۔

مجھے یہ سب آج یاد آیا،بے حساب یاد آیا۔وہ انگلینڈ کا میرا پہلا دورہ تھا۔بنگلہ دیش اور شارجہ کے بعد کسی تیسرے ملک کا ایونٹ تھا۔میرے لئے ہر چیز نئی تھی۔ہر ایک پرایا تھا لیکن اس سب کے باوجود کوئی خوف،ڈر یابے زاری نہیں تھی۔سب سے بڑھ کر یہ کہ دیار غیر میں میرا بڑا مسئلہ اجنبی ہونا تھا۔رمیز راجہ نہ ملتے تو شاید میں خالی واپس لوٹ آتا۔یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد مجھے ایک بار پھر لارڈز کا رخ کرنا پڑتا ۔مسئلہ پھر بھی حل ہوجاتا۔خوف پھر بھی نہیں ہونا تھا۔آج مجھے میرے آبائی شہر،آبائی ملک میں ایک قریبی ساتھی کے ہمراہ  ہونے،اپنی پولیس،اپنے اداروں کے ہونے کے باوجود جن مسائل کاسامنا کرنا پڑا وہ کسی پرائے ملک کے کسی تجربہ سے زیادہ تکلیف دہ،بے زار کن تھے۔ایک لمحہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا تھا کہ واپسی کریں۔میچز کے لئے بھی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔آئیے آپ بھی پڑھیں کہ یہاں ملتان میں اس روز ایسا کیا ہوا کہ مجھے آپ کو 2 عشرے پیچھے لے جانا پڑا۔اب واپس آج کی جانب بڑھتے ہیں۔

ملتان میں ایسے مناظر پہلے بھی دیکھے تھے،جب پی ایس ایل 2020 کے میچز ملتان میں شیڈول تھے لیکن ایسی سختی اور ترش روی کہیں دکھائی نہیں دی تھی۔ملتان کرکٹ اسٹیڈیم تک پہنچنا دشوار تر ہوتا جارہا تھا۔یہ ایک ایسا دن تھا کہ جس روز صرف پاکستانی ٹیم نے پریکٹس کے لئے شام 5 بجے کے قریب اسٹیڈیم آناتھا،ابھی کافی وقت باقی تھا۔وہاڑی چوک بلاک تھا۔سائیڈ روڈز سے ہوتے ہوئے اسٹیڈیم کے عقبی حصہ سے پہنچنے کی کوشش کی تو ایک تنگ سڑک کے کنارے بھی ٹریکٹر ٹرالی موجود تھی۔وہاں بھی پولیس ایلکاروں سے تکرار کاکوئی فائدہ نہیں ہوا۔پھر اس سے آگے موجود ایک کالونی کے مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہوئے اور اس کے آخری سائیڈ پر موجود بند گیٹ کے قریب گاڑی پارک کی۔وہاں بھی پولیس اہلکار موجود تھے لیکن اس کالونی سے باہر نکل کر دیکھا تو سامنے ملتان کرکٹ اسٹیڈیم دھوپ میں جگمگارہا تھا۔ایسا لگا کہ منزل قریب آگئی ہے۔وہ سفر  معمولی نہیں تھا، ایسی گرمی میں پیدل چل کر جانا بھی مشکل تھا،پھر بھی یہ سوچ کر کہ تمام رکاوٹیں عبور ہوچکیں،اطمینان ہوگیا تھا۔

ایسے می یکایک ایک اور رکاوٹ دکھائی دی۔پولیس نے بانسیں لگاکر راستے بند کررکھے تھے۔ایک اہلکار نے آگے بڑھ کر ہمارا جائزہ لیا اور جانے کا اشارہ کیا،ابھی چند قدم ہی  آگے بڑھے تھے کہ عقب سے اسی پولیس آفیسر کی آواز آئی کہ واپس آجائیں۔گاڑی میں موجود ایک آفیسر بلارہے ہیں۔ہم واپس آئے تو ایک پولیس آفیسر (عہدہ نہیں لکھا جارہا)نے کہا کہ کون ہو۔کیا تعارف ہے۔اس کے بعد ایسے اوٹ پٹانگ سوالات ہوئے کہ جو ضروری چیکنگ کے زمرے میں نہیں آتے تھے۔آفیسر اس سے بھی لاعلم تھے کہ ہمارے پاس موجود ایکریڈیشن کارڈ کس کے جاری کردہ ہیں۔خیر یہاں سے فراغت ملی تو لگا اب سب مشکلیں حل ہوگئی ہیں۔

اسٹیڈیم کا داخلی دروازہ ابھی بھی دور تھا ۔دائیں،بائیں پولیس،ریجرز،ایلیٹ فورس اور فوج کی گاڑیاں اور درجنوں اہلکار موجود تھے۔گرمی کے مارے،چہروں سے تھکاوٹ  اور بے زاری نمایاں تھی۔ان کی حالت تو دیدنی تھی جو مخصوص چبوتروں پر دھوپ میں الرٹ کھڑے تھے۔ابھی چند قدم آگے ہی بڑھے تھے کہ ایک اور پولیس اہلکار کو اپنا فرض یاد آگیا۔پہلے ہمیں فٹ پاتھ پر چڑھنے کو کہا،پھر روک دیا۔وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ ابھی میڈیا کے نمائندے نہیں جاسکتے۔کیونکہ سب کو روکا ہوا ہے۔ساتھ ہی اس نے اسٹیڈیم کی مخالف سمت اشارہ کیا،ہم نے دیکھا تو وہاں متعدد ٹی وی نمائندے موجود تھے۔ان سے اونچی آواز میں وجہ پوچھی تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کردی۔

یہاں میرے ساتھ موجود ساتھی نے اسے کہا کہ ہمارا تعلق ٹی وی سے نہیں ہے۔ہمارے کارڈ کی ایکسیس پڑھیں کہ ہم کہاں تک جاسکتے ہیں،اسے آسانی سے سمجھ نہیں آرہا تھا۔طویل وضاحت کی تو اس نے جان چھڑوانے کے اپنے سے بہت آگئے موجود کسی آفیسر کی جانب اشارہ کیا کہ اس سے رجوع کریں۔

ملتان میں 14 سال بعد ون ڈے،ایک تلخ یاد بھی ساتھ

ہم اب تھک چکے تھے۔گرمی سے بے حال تھے۔تیز تیز قدم اٹھاتے مین گیٹ کی جانب بڑھے،راستے میں موجود تمام سکیورٹی اداروں کے لوگ دیکھ رہے تھے،کسی نی پھر روکا نہ ہم نے انہیں دیکھا۔اس کے بعد ہمارے لیے مین گیٹ کھل چکا تھا۔وہاں سے میڈیا بکس تک کا سفر باقی تھا،راستے میں سکیورٹی اداروں کی دیوٹیز،بھاگ دوڑ،ناکہ بندی سب دکھائی دیئے۔آخرکار میڈیا سنٹر میں داخل ہوہی گئے۔

میں 21 سال قبل کارڈف کے میڈیا بکس کو یاد کررہا تھا۔کچھ لمحے لگے کہ میں واپس ملتان کرکٹ اسٹیڈیم کے میڈیا سنٹر میں پہنچ پایا۔ذہن بہت منتشر تھا۔آہستہ آہستہ حالت سازگار ہوئی تو وہاں موجود دوستوں سے سلام دعا ممکن ہوسکی۔

کرکٹ جنٹلمین کا کھیل ہے۔سکیورٹی مسائل اپنی جگہ ہونگے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ اس کے نام پر ہم سارا سسٹم ہی جام کردیں۔ملک یا شہر کی عوام ایسے ایونٹ کو اپنے علاقہ کے لئے فخر کی بجائے مصیبت،ذر مبادلہ سمجھنے کی بجائے مالیاتی خسارہ اور کھیل کی بجائے جنگ سمجھنا شروع کردے۔آدھا شہر جب تنگ ہوگا تو تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ وہاں کے باسیوں کا کیا حال ہوگا۔نفری چار گنا کرنے،میلوں لمبے روٹ لگانے،سب کچھ جام کرنے کی بجائے بہترین حکمت عملی کے ساتھ احسن طریقہ اور متاثر عوام کو متبادل سہولت دینے کے ساتھ ایسی سیریز یا ایونٹ خوشگواربنایا جاسکتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جس آفیسر نے اسٹیڈیم سے دور ایک مقام پر ہمارے کارڈ چیک کرنے کی کوشش کی تو اسے یہ علم نہیں تھا کہ یہ کس نے جاری کئے ہیں،جہاں اس امر کی ضرورت تھی کہ کارڈ چیک ہوتا اور کارڈ والا بھی چیک کیا جاتا،وہاں گلے میں موجود الٹے پڑے کارڈ کو دیکھ کر گیٹ کھول دیئے گئے۔کسی کے پاس ایک لسٹ نہیں تھے کہ وہ اپنے سامنے رکھے۔ایک منٹ کےااندر چیک کرلے کہ پی سی بی کے جاری کردہ کارڈ اس فہرست میں موجود ہیں یا نہیں۔

کرکٹ ایک کھیل ہے۔ایک تفریح ہے۔کرکٹ فینز کو اس سے عشق ہے،وہ سخت گرمی کے باوجود میچ دیکھنے آئیں گے۔وہ ایسی تمام مشکلات اورسختیاں بھی برداشت کریں گے لیکن  جاتے جاتے کہیں یہ نہ کہدیں کہ کرکٹ کے کھیل کے لئے کیسا کھیل یاتماشا چاروں جانب لگا ہے۔کوئی یہ نہ کہدے کہ ہم تو تفریح کے لئے میچ دیکھنے،ٹیموں کی حوصلہ افزائی کرنے آئے تھے،آگے تو ایسے مناظر تھے کہ جیسے کسی آزادی مارچ کو روکنے یا اس پر دھاوا بولنے کے ہوتے ہیں،کیا باقی بچے گا؟

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *